America Aur Mexico
امریکہ اور میکسیکو
جمہوریت کے لحاظ سے میری فیورٹ مثال امریکہ اور میکسیکو ہیں۔ میں اکثر اس مثال کا ذکر کرتا ہوں آپ کو پھر بتاتا چلوں کہ امریکہ سپر پاور اس لئے نہیں ہے کہ وہ امریکہ ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہاں جمہوریت حد سے زیادہ مضبوط ہے۔ دو سال پہلے کیپیٹول امریکہ پہ دھاوا بول کر امریکی شہریوں نے ٹرمپ کی بحالی کا نعرہ لگایا تب بہت سے پاکستانی اینالسٹس کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کے زوال کی طرف بڑھا پہلا قدم ہے مگر تب بھی میرا یہ ماننا تھا کہ امریکی جمہوریت اتنے چھوٹے سے احتجاج کے بعد کبھی بھی زوال پذیر نہیں ہو سکتی۔
اس بات کی وجہ پہلے پیراگراف والی مثال ہے۔ وہ مثال کیا ہے؟
امریکہ اور میکسیکو ایسے ہی ہیں جیسے پاکستان و انڈیا، ان دو میں جمہوریت کا آغاز تقریباََ قریب قریب ہوا لیکن امریکہ میں جمہوریت شروع ہوئی تو تقریباََ متزلزل رہی مگر آہستہ آہستہ stability کی طرف بڑھتی چلی گئی وہیں میکسیکو تھا وہاں اٹھارویں صدی میں فقط بیس سال کے عرصہ میں 52 حکومتیں بدلی، حتٰی کہ 1913 میں ایک دن ایسا بھی تھا جب میکسیکو کے لوگوں نے تین تین صدور بدلتے دیکھے۔
بظاہر یہ معمولی سی بات ہے مگر یہی بات میکسیکو کے لئے زوال کی وجہ بنی، آج میکسیکو منشیات فروشوں اور لٹیروں کا گڑھ ہے مگر امریکہ پوری دنیا پہ راج کر رہا ہے۔ ہم جب کسی کی کامیابی دیکھتے ہیں تو اس کی کوشش کے انتھک محنتوں والے سال بھول جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم جمہوریت سے بھی فوری نتائج حاصل کرنے کی امید لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
جبکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ہمارے ہمسایہ ملک کے فارن ریزرو 600 ارب ڈالر کے قریب ہیں جبکہ ہم آج آئی ایم ایف سے دو سے چار ارب ڈالر کی بھیک مانگنے کی جستجو میں اگلے چند دنوں تک پٹرول مہنگا کرنے جا رہے ہیں۔ اگر آپ زوم آؤٹ کر کے دیکھنے کی کوشش کریں تو اس سب میں قصور عام آدمی کا کم اور اشرافیہ کا بہت زیادہ ہے جو کبھی بھی حکومتوں کو ٹکنے نہیں دیتی۔
میرا تعلق سائنس سے ہے اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ اپنی آڈینس کو سیاست یا دوسرے موضوعات سے دور ہی رکھوں۔ لیکن جب عمران خان کی حکومت گرانے کا وقت آیا تھا تو میں نے کھلم کھلا اس کی حمایت کی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ حکومت کسی فرشتے کی تھی بلکہ وجہ محض جمہوریت کا تسلسل تھی۔ جمہوریت میں کبھی بھی سب کچھ ایک دم سے نہیں بدل سکتا۔ بلکہ جمہوریت کیا کسی بھی سسٹم میں محض پانچ سال کے عرصہ میں سوائے ایک آدھ ادارے کے کچھ نہیں بدلا جا سکتا۔
خان نے وہ کچھ بدلا، بالکل ویسے ہی جیسے ن لیگ نے کچھ اداروں کو بدلا تھا۔ ان دو باتوں سے آپ انکار نہیں کر سکتے اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو کسی bias کا شکار ہیں۔ مگر خان کی پالیسیاں ایکدم سے عالمی ساہو کاروں کے مخالف چل نکلیں تھی اس لئے اس کو اتارنے کا پلان آیا اور اتار دیا گیا۔ یہ پاکستان کی اب تک کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی بلنڈر تھی تب ہم نے کہا مگر اب وقت ثابت کر رہا ہے۔
آج پڈم کی حکومت جو کہ میرے لئے محترم ہے خود مان چکی ہے کہ خط اصلی تھا۔ یہ خود مان رہے ہیں کہ پٹرول مہنگا کرنا چاہیے تھا مگر خان نے اچھی ٹیکس کولیکشن سے ریلیف دیا، خود مان رہے ہیں کہ روس کا دورہ درست تھا، خود مان رہے ہیں کہ ہم نے اڑتے تیر کے سامنے کھڑے ہونے کی حماقت کی ہے مگر بہت سے عام لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔ اور وہ ابھی تک اسے بلیک اینڈ وائٹ دیکھنے کی سمجھ سے عاری ہیں کیونکہ وہ ایک پولیٹیکل bias کا شکار ہیں۔
اب ملک میں کیا ہو گا یہ وقت ہی بتائے گا، لیکن۔
چونکہ ٹائم ٹریول ممکن نہیں اور ماضی کی غلطیاں سدھارنا نا ممکن کام ہے اس لئے عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ موجودہ حکومت جو کہ ہے تو امپورٹڈ لیکن ہے تو ہماری ہی حکومت، نئے الیکشن کروا کر پی ٹی آئی کیساتھ مل کر اس بات سے توبہ تائب ہو کہ اگلی بار جو بھی آئے ان میں سے کوئی بھی کسی کی ٹانگیں نہیں کھینچے گا۔ اس کھینچا تانی کا سب سے بڑا نقصان انویسٹرز اور زرخیز دماغوں کا ملک سے بھاگ جانے کی صورت میں ملک کی اگلی نسلوں کو اٹھانا پڑتا ہے اور ہمارا ملک پچھلے پچھتر سالوں سے یہ نقصان اٹھا رہا ہے، ہماری سب جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ دیر تو نہیں ہوئی نا۔
ورنہ میکسیکو اور امریکہ کے بعد اگلی مثال دنیا پاکستان اور انڈیا کی دیا کرے گی۔ کیونکہ انڈیا جس تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے اس کا اب رکنا نا ممکن ہے لیکن وہیں ہمارا انڈیا کے برابر پہنچنا بھی نا ممکن بنتا جا رہا ہے۔ کچھ دنوں تک پٹرول مہنگا ہونے سے مزید مہنگائی ہو گی۔ پڈم والے صرف اس لئے چپ ہیں کیونکہ ان کی سیاسی وابستگی ان کیساتھ ہے ورنہ پسینے ان کے بھی چھوٹ چکے ہیں۔
ہماری دعا یہی ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں اور اگلا جو بھی وزیراعظم آئے اس کی ٹانگیں کوئی نا کھینچے ورنہ ہمارے لئے اس گڑھے سے نکلنا نا ممکن ہو جائے گا۔ دعا ہے کہ یہ لوگ مذاکرات کر کے ملک کو کھول دیں اور جلد از جلد الیکشن کروا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیں کیونکہ پولیس والے بھی ہمارے ہم وطن ہیں ان سے ڈنڈے کھانے والے بھی، ہم نے اسی سبز جھنڈے کے نیچے جینا ہے اور ہمیں اس ترقی پذیر سوچ والے سیاسی نظام کو مستحکم سیاسی نظام میں بدلنا ہو گا جہاں باری لینے سے زیادہ حکومت کا تسلسل اور پالیسی کا چلنا اہم ہو گا۔
ورنہ ہمارا ہمسایہ ملک جو اس وقت مریخ پہ بھی قدم جما چکا ہے ہمارے مقابلے سے کئی سو سال آگے ہو گا اور ہم اسی بحث میں ہونگے کہ فلاں کی ریلی میں اتنے سو بندہ تھا اور فلاں کا بیان ایسا تھا، نوجوان نسل کو اس پر انرجی ویسٹ کرتا دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ہمیں ان کو روزگار کمانے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق پہ لگانا ہوگا نا کہ اس فضول کی سیاسی بحث اور احتجاجوں کی سیاست میں، دعا ہے کہ ہمارے سیاسی حالات دوبارہ سے مستحکم ہو جائیں کیونکہ عدم استحکام میں ہم سب کا ہی نقصان ہے۔