Aggression Ki Iqsam
ایگریشن کی اقسام
لاکھوں سال کے ارتقاء کے بعد ہمارے کچھ بہیوئر ایسے بنے ہیں کہ ان سے چھٹکارہ پانا ناممکن ہے۔ جیسا کہ ہمارا کسی طرح کے بھی برے حالات میں دیا گیا ری ایکشن۔ یہ ری ایکشن مردوں اور عورتوں میں یکسر مختلف قسم کا ہوتا ہے اور اس کی وجہ مردوں میں موجود ٹیسٹو سٹیرون نامی ہارمون ہے۔ یہ ہارمون مردوں کو ایکٹو ایگریشن مطلب جسمانی غصہ دکھانے پر مجبور کرتا ہے وہیں پر اس کی کمی خواتین کو پیسو ایگریشن یا پھر زبانی غصے کی طرف لاتی ہے۔
ایکٹو ایگریشن کا مطلب ہے کہ مرد جو کہ ایک صحتمند ویلو میں ٹیسٹو سٹیرون رکھتے ہیں وہ کبھی بھی لفاظی لڑائی میں نہیں پڑتے۔ ان کے نزدیک لڑائی کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے یا آپ اس کی ناک پھوڑیں گے یا پھر وہ آپ کی، اس سے اوپر نیچے وہ بہت کم سوچتے ہیں۔ جبکہ پیسو ایگریشن جو کہ ٹیسٹو سٹیرون کی کمی کی وجہ سے ظاہر ہوتا ہے اس میں خواتین اور کچھ مرد حضرات جو کہ ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں وہ کبھی بھی فزیکل لڑائی کا نہیں سوچتے ہیں۔
بلکہ وہ اپنی زبان کو چلا کر لڑائی کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس تکنیک میں سب سے کارآمد حربہ اگلے کی برائی کرنا، اگلے کی کردار کشی کرنا یا پھر اگلے سے لفاظی لڑائی لڑنا ہے۔ اب جبکہ کم ٹیسٹو سٹیرون کی وجہ سے خواتین یا ایسے مرد حضرات ایگریشن دکھا نہیں پاتے ہیں اس لئے وہ اپنا زیادہ تر وقت چغلیاں کرتے، کسی کی کردار کشی کرتے یا پھر کسی سے گالم گلوچ کرتے نظر آئیں گے لیکن آپ کبھی بھی ان کو ہاتھا پائی کرتا ہوا نہیں دیکھیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ خواتین حد سے زیادہ چغلیاں کرنا پسند کرتی ہیں جبکہ مرد حضرات چغلیوں سے چڑ جاتے ہیں۔ اب یہ لاکھوں سالوں کے ارتقاء کے نچوڑ کو یکدم سے جھٹکا تب لگا جب سوشل میڈیا آیا۔ یہاں پر اظہار کی آزادی حد سے زیادہ ہے اس لئے محققین کے مطابق وہ فی میل ایگریشن جو کہ پہلے گوسپ یا پھر چغلیوں اور زبانی و لفاظی لڑائی تک محدود تھا وہ ایک نئی جہت اختیار کر چکا ہے۔
اس وقت انٹرنیٹ پر ایکٹو خواتین یوزرز میں ایگریشن کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے حتیٰ کہ آپ دیکھیں گے کہ پورا انٹرنیٹ خواتین کے حقوق کی باتوں سے بھرا ہونے کے باوجود ان کی آپسی لڑائیوں سے محفوظ نہیں یا ان کی مردوں کے بارے میں کی گئی کردار کشی سے محروم نہیں ہو پایا۔ یہ پیسو ایگریشن صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا ایپس جیسا کہ انسٹا گرام، سنیپ چیٹ، واٹس ایپ یا فیس بک وغیرہ پر سیلفی اپ لوڈ کرنے کا تعلق ان کے ایگریشن لیول سے جڑا ہوا ہے۔ جو خاتون زیادہ ایگریسو ہونگی وہ اتنی زیادہ سیلفیاں لگانے پہ تلی نظر آئیں گی۔ وہیں پر مرد حضرات سیلفیز لگانے سے ممکن گریز برتتے ہیں۔
اسی طرح اگر آپ سوشل میڈیا پر لڑائیوں کو دیکھیں تو ڈیٹا کے مطابق خواتین یوزر مرد یوزر کے مقابلے میں زیادہ لڑتی ہوئی ملیں گی۔ کیونکہ ان کو اپنے پیسو ایگریشن کے اظہار کا بہترین ٹول مل رہا ہے۔ وہیں پر کچھ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ تاریخی تناظر میں آج کی لڑکیاں ایک دوسرے کیساتھ ماضی کے مقابلے میں زیادہ اگریسو ہو کر جی رہی ہیں اور اس بات کی گواہی آپ کو کینسل کلچر کی صورت میں دیکھنے کو مل بھی سکتی ہے جس میں لڑکیاں دوسری لڑکیوں یا لڑکوں کی جھوٹے الزامات کی بنیاد پر کردارکشی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔
گو ایگریشن کی یہ اقسام آپ کو مختلف جگہ پر دیکھنے کو مل جاتی ہیں لیکن ایگریشن کا یہ بدلتا ہوا پیٹرن تشویشناک بھی ہے مگر اس کو کم کرنا ناممکن ہی ہے۔ وہیں پر سوشل میڈیا پر ہمیں خود کو ایگریشن دکھانے سے ہر ممکن حد تک بچنا چاہیے۔