Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Aap Ki Tawaja Chahiye Thi Tehqeer Nahi

Aap Ki Tawaja Chahiye Thi Tehqeer Nahi

آپ کی توجہ چاہیے تھی تحقیر نہیں

یہ بچہ تو سائیں ہے اس کو کچھ نہیں آتا، اوئے چھوٹے، تمہیں کچھ سمجھ کیوں نہیں آتا؟ یہ ہاتھ کیوں ہلا رہے ہو؟ تم کتنے نالائق، جاہل اور اجڈ بچے ہو جسے دو جمع دو کی سمجھ تک نہیں آتی؟ تم تو زندگی میں کچھ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ تمہاری حرکتیں ہی کچھ کرنے والی نہیں ہیں۔ تم تو ہمارے بچے ہی نہیں ہو، تم تو پتا نہیں کس پر گئے ہو جو کسی کی بات سمجھ ہی نہیں سکتے؟

یہ اور ان جیسے ملتے جلتے مورال نیچا کرنے والے کمنٹس بہت سے والدین اور استادوں سے کامنلی سننے کو مل جاتے ہیں۔ جن کے پاس ایسے بچے ہوتے ہیں جو کہ حد سے زیادہ بھلکڑ ہوتے ہیں جن کی عادات میں سب سے کامن عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ کہے گئے کام پہ توجہ نہیں دے پاتے اور نتیجتاََ وہ کام کو غلط انجام دے دیتے ہیں یا پھر وہ اپنی حرکتوں پہ کنٹرول ہی نہیں کر سکتے، بلکہ جگہ جگہ جہاں آرام سے بھی بیٹھنا پڑتا ہے وہاں بھی اچھلنا کودنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر والدین یا استاتذہ کی شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ یا پھر وہ انتظار کرنے کی عادت سے ماورا بے صبرے ہوتے ہیں اور ہر کام بے صبری سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

کیا یہ بچے نالائق اور کند ذہن ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں؟ جی نہیں! ان بچوں کے کنٹرول میں ہی نہیں ہوتا کہ یہ اپنی ان حرکات پہ قابو کر سکیں اور خود کو کسی ڈسپلن کے تحت چلا سکیں بلکہ یہ بچے فطری طور پہ ایسے پیدا ہوتے ہیں اور یہ سب ان سے کنٹرول ہو ہی نہیں سکتا۔ نیوروسائنس اور سائیکالوجی میں ہم اے ڈی ایچ ڈی یا پھر اٹینشن ڈیفسٹ ہائیپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ہم ایسے بچوں کو سائیں کہہ کر بھی بلاتے ہیں مگر سائیں بچوں میں کئی اور بھی نفسیاتی کنڈیشنز آ جاتی ہیں مگر ان میں سے ایک قسم یہ بھی ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی ہے کیا بلا؟ اے ڈی ایچ ڈی یا پھر اٹینشن ڈیفسٹ ہائیپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر دراصل ایک میڈیکل کنڈیشن ہے جس کی وجہ سے کسی بھی شخص یا بچے کا دماغ اس کی حرکات اور ایموشنز پہ کنٹرول نہیں رکھتا اور ایسے بچوں کو سماجی زندگی میں کافی دقت اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ اس وقت سب سے زیادہ عام دماغی ڈس آرڈر ہے جس کا بچے تو بچے، بالغ بھی برابر کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ایسے بچے بھی تو بالغ ہوتے ہیں۔

اس بیماری کی علامات کیا ہیں؟ اس بیماری کی سب سے زیادہ کامن علامات توجہ کی کمی جیسا کہ کسی چیز پہ توجہ نا دے سکنا، ہائیپر ایکٹیویٹی جیسا کہ حد سے ایکٹو رہنا اور طرح طرح کی حرکات و سکنات کرنا اور بغیر سوچے سمجھے حرکات کر دینا ہے۔ اس وقت اس بیماری کا شکار بچوں کی تعداد 8سے4% سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے جبکہ اڈلٹس کی تعداد ڈھائی فیصد تک ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کا سب سے پہلے پتا سکول میں یا پھر رشتہ داروں کے ہاں جانے کے دوران پتا چلتا ہے جہاں وہ بچہ اپنی حرکات و سکنات پہ کنٹرول نہیں کر سکتا یا پھر ہوم ورک کرنے میں مشکلات کا شکار ہوتا ہو۔

توجہ کی کمی اس بیماری کی ایک علامت ہے۔ ایسے بچے ایک جگہ توجہ دے کر اس کام کو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور آسانی کے ساتھ اپنی توجہ متنفر کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے بچے اکثر بتائی گئی بات بھول جاتے ہیں جیسے آپ انہیں کسی جگہ کی سمت کا بتائیں تو وہ اسے بھول جائیں اور کام شروع ہی نا کر سکیں جس کو کرنے کا آپ نے کبھی کہا تھا۔ اے ڈی ایچ ڈی کے شکار بچے مندرجہ ذیل علامات میں سے کم از کم پانچ علامات ایک وقت میں ظاہر کرتے ہیں جو کہ یوں ہیں۔

کس بھی طرح کی ہدایات کو غور سے نہیں سنتے اور بھول چوک سے بارہا غلطیاں کرتے ہیں، کسی طرح کے بھی کام میں توجہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے جیسا کہ کلاس میں یا پھر لمبی گفتگو میں یا پھر کتاب یا لمبا پیراگراف پڑھنے میں دقت رکھتے ہیں، کوئی بول رہا ہو تو اس کی سنتے ہی نہیں ہیں، اپنی نوکری یا سکول کے کام کو نہیں کرتے اور کسی طرح کی بھی ہدایات کو فالو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ایسے کام کرنے سے کتراتے ہیں جن میں دماغی صلاحیتوں کا استعمال ہو جیسا کہ کسی طرح کی رپورٹ بنانا یا تخلیقی سوچنا وغیرہ، روز مرہ کی روٹین کے امور بھول جانے کی عادت رکھتے ہیں اور روز مرہ کے استعمال کی چیزیں گم کرتے رہتے ہیں جیسا کہ کاپی پینسل، فون، عینک وغیرہ۔

اس بیماری کی ایک اور علامت حد سے زیادہ ایکٹو ہونا ہے۔ ایسے بچے عموما ََآسانی کےساتھ بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں سو اس سے بچنے کے لئے یہ ہر وقت کسی نا کسی طرح کی حرکات و سکنات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی کام کی ہدایات مکمل ہونے سے پہلے ہی چھیڑ چھاڑ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کام کو مکمل ہونے سے پہلے ہی خراب کر دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کو آپ جب بھی دیکھیں گے کسی نا کسی خیال میں گم سم اور غائب دماغ پائیں گے جو کہ کسی بھی کام کو اچھے سے کرنے کا ڈھنگ نہیں رکھتا ہوگا۔ حد سے زیادہ ایکٹو ہونے کی مندرجہ ذیل علامات اے ڈی ایچ ڈی کے شکار بچے ظاہر کرتے ہیں۔

ہاتھ اور پاؤں کو ہر وقت حرکت میں رکھتے ہیں اور اس کو کنٹرول نہیں کر سکتے جیسے ہر وقت انگلیاں چٹخنا وغیرہ، اپنی کرسی پہ بیٹھنے کی عادت نہیں ہوتی، جہاں چل کر کام ہو سکتا ہے یہ وہاں بھاگنا شروع کر دیں گے، حد سے زیادہ بولتے ہیں، کھیلنے اور تفریحی سرگرمیوں سے دور بھاگتے ہیں، اپنی باری کا انتظار نہیں کر سکتے اور بھاگم بھاگ چلے جاتے ہیں، سوال ختم ہونے یا بات ختم ہونے سے پہلے ہی اگلے کو ٹوک کر جواب یا پھر اپنی بات کو شروع کر دیں گے اور ذرا سے اشارے یا سٹیمولس پہ ایکٹو ہو جائیں گے۔

بغیر سوچے سمجھے حرکات کر دینا، یہ ایک اور علامت ہے جس میں یہ بچے ایک کام بغیر سوچے سمجھے کرنے کی حرکت کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔ وہ بچے جو کہ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ اس بات کا خیال ہی نہیں رکھتے کہ انہیں کسی کام کے لئے انتظار کرنا چاہیے کہ نہیں بلکہ یہ ہر وقت جلدی سی میں ہوتے ہیں اور اپنی حرکات کا محاسبہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔

اے ڈی ایچ ڈی کی وجوہات کیا ہیں؟ اس وقت تک ہمیں اس بیماری کی مکمل وجوہات کا علم نہیں ہو سکا کہ یہ بیماری کن وجوہات کی بنا پہ ہوتی ہے لیکن جو بات حد سے زیادہ مشاہدے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ جو بچے اس کا شکار ہوتے ہیں ان کا ایک آدھ رشتہ دار بھی اس بیماری کا ضرور ضرور شکار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے سائنسدان یہی قیاس کرتے ہیں کہ اس بیماری کی ایک حد تک وجوہات جینیاتی ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی قیاس ہے کہ ایسے بچے جو کہ قبل از وقت اور امیچور پیدا ہوتے ہیں یا پھر وہ بچے جن کو پیدائش کے دوران دماغی انجری کا سامنا ہو جاتا ہے وہ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بات زیادہ تر دیکھی گئی ہے وہ یہ بھی ہے کہ ایسے بچوں کی مائیں سگریٹ یا شراب نوشی زیادہ کرتی ہیں۔

زیادہ تر والدین ایسے بچوں کو خود پہ ایک طرح سے خدا کا عذاب سمجھ لیتے ہیں اور ان کو ایک بوجھ سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھتے جو کہ ان کی پہلے سے موجود پریشانیوں میں حد سے زیادہ اضافے کا باعث بنتے ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں ہوتے۔ یہ بچے کسی بھی قسم کا عذاب نہیں ہوتے بلکہ ان کو تو خود بھی اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کا جسم جو کچھ کر رہا ہے اور ان کا دماغ ان کے جسم سے جو کچھ کروا رہا ہے وہ کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور کیسے وہ ابنارمل بات ہو سکتی ہے؟

اس بات کو آپ یونہی سمجھ لیں جیسے آپ کو حد سے زیاد بخار ہوا ہو تو آپ الم غلم بکنے لگ جاتے ہیں، آپ چاہتے ہوئے بھی اپنے جسم کی کپکپی کوکنٹرول نہیں کر پاتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی شخص بھی آپ کےساتھ اونچی آواز میں بات نا کرے بلکہ سب لوگ آپ کےساتھ پیار اور محبت سے بات کریں۔ مگر وہیں جب دوسروں کی باری آتی ہے تو ہم آنکھیں سر پہ رکھ لیتے ہیں اگر یہ بچہ کسی ہمسائے کا ہو تو پھر تو اس کو انسان ہی نہیں سمجھتے جبکہ ان بچوں کو تو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیسے خود کو ایک جگہ نارمل بٹھا سکتے ہیں؟

ہمارے تقریبا ََننانوے فیصد سکول ٹیچر وہ ہیں جن کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ایک بچے کی نفسیات کیا ہوسکتی ہیں اور اس کی نفسیاتی ضروریات کیا ہو سکتی ہیں؟ وہ اس بات کا خیال رکھنے تک کی زحمت نہیں کرتے ان کی ٹریننگ کرنا تو دور کی بات ہے۔ یہی بلکہ اس سے ابتر حال والدین کا ہوتا ہے جو کہ بچوں کی تربیت اور خیال کا سوچنا تک گوارا نہیں کرتے۔ اور ایسے بچوں کو کلاس روم سے لےکر گھر تک اور گھر سے لےکر گلی تک ہرجگہ طرح طرح کے ناموں اور القابات سے نوازا جاتا ہے جبکہ یہ بچے ہم سے محض تھوڑی سے توجہ مانگ رہے ہوتے ہیں۔

اس بیماری کا حل کیا ہے؟ اس بیماری کا حل ادویات سے لےکر توجہ دینے تک ہے۔ عالمی سطح پہ تو اس بیماری کے علاج کے لئے ادویات کے دو گروپ زیر استعمال ہیں جن کو سٹیمولنٹ اور نان سٹیمولنٹ گروپ کانام دیا جاتا ہے۔ methylphenidateاور amphetamines امی ادویات کی قسم سٹیمولنٹ قسم ہے جس میں atomoxetineاورguanfacineشامل ہیں جو کہ اس بیماری کے شکار بچوں پہ مثبت اثر دکھاتی ہیں اگر یہ ادویات مقامی سطح پہ دستیاب ہیں تو انہیں فقط ڈاکٹر کے مشورے سے ہی استعمال کرنا چاہیے اس تحریر کا مقصد محض ادویات بارے آگہی دینا ہے کیونکہ ایسی ادویات کا سائیڈ ایفیکٹ بھی ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس بیماری کی بنیاد اچھی پیرینٹنگ ہے۔ والدین کو والدین بن کر بچے کےساتھ پیش آنا چاہیے اس کو حد سے زیاد ہ توجہ دےکر اس کی ڈیلی روٹین کو مانیٹر کرنا چاہیے اور ان کی اچھے سےراہنمائی کرنی چاہیے کہ ایسے روٹین بنا کر چلیں اور یہ کام کریں اور یہ نہیں۔ اس کے علاوہ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ ہر بچے کو کتاب رٹنے والی مشین سمجھنے کی بجائے ہر بچے کو اس کی قابلیت کے مطابق جانچیں کیونکہ سب بچے ایک سے نہیں پیدا ہوتے اور ایسے بچے تو بالکل خاص ہوتے ہیں انہیں آپ کی تحقیر نہیں بلکہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

Check Also

Tilla Jogian, Aik Mazhabi Aur Seyahati Muqam

By Altaf Ahmad Aamir