Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Zamana Chaal Qayamat Ki Chal Gaya

Zamana Chaal Qayamat Ki Chal Gaya

زمانہ چال قیامت کی چل گیا

اپنے وقت کی وزیراعظم شہید بی بی کی ایک سرکاری میٹنگ کی تصویر میں منرل واٹر بوتل نظر آئی تو ملک میں کہرام مچ گیا۔ کہا گیا کہ ان کا تو پینے کا پانی بھی فرانس سے آتا ہے لیکن آج چولستان کے پیاس سے ترستے ہوئے بچے کے ہاتھ میں منرل واٹر کی یہ بوتل مسکرا کر کہہ رہی ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تدبیر آگے نکل گئی اور ریاست سوچتی (سوئی) رہ گئی۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ آج چولستان کے پیاس سے بے حال جانداروں تک چندے سے خریدے گئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منرل واٹر کی بوتل آسانی سے پہنچ جاتی ہے مگر نہ تو ریاست اور نہ ہی عوام خدائی تحفے میں ملے ہوئے بارش کے پانی کو قدرتی طریقوں سے ذخیرہ کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ ان جانداروں کی ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہر سال آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ یہ سرا سر کفرانِ نعمت ہے اور ہماری بہت بڑی غفلت۔

منرل واٹر پر دھڑا دھڑ پیسے خرچ کرنے کی بجائے مٹی کا ایک بڑا مٹکا رکھ کر اسے روزانہ کی بنیاد پر ٹینکر سے آ کر بھرا جا سکتا ہے اور ایسے مٹکے کئی اجتماعی جگہوں پر سایہ دار جگہوں پر رکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سی فلاحی تنظیمیں مہم چلا کر ملک کے دوسرے حصوں سے پلاسٹک کے استعمال شدہ ڈرم اور ٹب، فائبر گلاس کے کنٹینر، بڑی اور چھوٹی بوتلیں، مٹی کے مٹکے اور گھڑے جو کہ دوسرے لوگوں کے لئے کباڑ ہوتے ہیں اکٹھا کر کے چولستان پہنچا سکتے ہیں جہاں پر انہیں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عید قربان قریب ہے جس پر آج کل لوگوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ قربانی کی کھالوں کو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے۔ کچھ رفاہی تنظیمیں ایسی منصوبہ بندی کر لیں کہ ان کھالوں کو اکٹھا کر کے چمڑے کے مشکیزے بنوالیں اور ہر سال قحط سالی کے موسم میں ان مشکیزوں کے ذریعے چولستان میں پانی فراہم کریں اور روزانہ کی بنیاد پر ٹینکروں سے ری فل کرتے جائیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ شہر میں پینے کے پانی کی بوتلیں کمپنی والوں سے ری فل کرواتے ہیں یا ایل پی جی کے سلنڈر ری فل کرواتے ہیں۔

اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو کچھ عرصے بعد ہی چولستان میں آپ کو پانی کی خالی پلاسٹک والی بوتلیں ہر طرف بکھری نظر آئیں گیں جو کہ ماحول اور جانوروں کے لئے انتہائی نقصان دہ چیز ہے۔ چولستان میں پینے کے صاف پانی کا سارا دارومدار بارشوں پر ہوتا ہے جو کہ صرف جولائی سے ستمبر تک کے تین مہینوں میں ہوتی ہیں۔ محکمہ موسمیات پاکستان کے بارش کے ریکارڈ کے مطابق چولستان میں سالانہ اوسط بارش 80 سے 250 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔

صرف ان چند مہینوں کی بارش سے مالک پانی کی اتنی زیادہ مقدار ہمیں بھیج دیتا ہے کہ جس کو اگر کسی مناسب طریقے سے محفوظ کر لیا جائے تو یہ پانی سارا سال تمام چولستانیوں اور ان کے جانوروں کی پیاس بجھانے کے بعد بھی بچ جائے گا۔ حتٰی کہ زائد پانی سے آہستہ آہستہ زمینی پانی کو ری چارج کر کے اس کی کڑواہٹ بھی کم کرنے کا سوچا جا سکتا ہے لیکن یہ کام حکومتی سرپرستی اور بہت زیادہ وسائل مانگتا ہے۔

تاہم تین لاکھ چولستانی جو کہ 26 ہزار اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ وسیع تین اضلاع میں بٹے ہوئے علاقوں میں رہتے ہیں وہ شائد انتخابات کے نتائج پر شائد کوئی خاص اثر انداز نہیں ہو سکتے اس لئے بھلا دئیے گئے ہیں۔ گو کہ چولستان ڈویلپمینٹ اتھارٹی اور PCRWR اس سلسلے میں چولستان میں بہت کام کر رہے ہیں لیکن اتنے پھیلے ہوئے علاقے میں ان کا کام زیادہ مؤثر اس لئے نظر نہیں آتا کہ مکمل ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بہت زیادہ وسائل چاہئیں۔

دنیا بھر میں صحرائی اور خشک بنجر علاقوں میں بارش کے پانی کو مقامی طریقوں سے محفوظ بنانے کے درجنوں طریقے رائج ہیں یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ان میں سے کچھ چولستان میں پہلے سے رائج بھی ہیں لیکن کم تعداد، غیر سائنسی طریقہ کار اور غیر منظم و غیر مربوط کوششیں ان کی افادیت کو بے ثمر کر دیتی ہیں۔

اس طرح کے کچھ سادہ طریقے یہ ہو سکتے ہیں:-

چھوٹے چھوٹے چیک ڈیمز۔

بندات (سیدھے، ترچھے، ان کی ہر علاقے کے حوالے سے بہت سی قسمیں ہیں)۔

تالاب (پختہ، کچے یا پولی تھین والے)۔

ٹوبے، (پختہ اور کچے) اور کنڈ۔

زیرِ زمین ریت کے ڈیم اور تالاب۔

زیرِ زمین پانی کو ذخیرہ کرنے والے ٹوبے۔

بارش کے پانی کو جڑوں اور تنوں میں محفوظ کرنے والے خاص قسم کے درخت، پودے، پھل اور سبزیاں۔

پانی چوس کنوئیں (زمین پانی کا ری چارج)۔

ریت کی سطح کی چکنی مٹی سے لپائی۔

پولی تھین شیٹوں اور اس سے ملتے جلتے جلتی مٹیرئیل کا استعمال۔

پلاسٹک کی ٹینکیاں، پتھر اور مٹی کی ٹینکیاں۔

مٹی اور پلاسٹک کے ڈرم اور مٹکے۔

سیلابی پانیوں کا صحرا میں پھیلاؤ۔

نہری پانیوں سے زیرِ زمین ری چارج۔

اور اس جیسی درجنوں اور تیکنیک شامل ہیں۔

تاہم مسئلہ اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب حکومتی اداروں کی سرپرستی میں اس طرح کی چیزوں کو بہت زیادہ تعداد میں وسیع پھیلی ہوئی جگہ پر کیا جائے جس میں مقامی لوگ اور رضاکار تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ورنہ ہر سال چندے سے خرید کر بھیجے جانے والی منرل واٹر کی بوتلیں چولستانیوں کی پیاس تو شائد نہ بجھا سکیں لیکن ماحولیاتی آلودگی ضرور بڑھا دیں گی۔

ہمیں اپنے عمل کی رفتار کو بڑھانا ہو گا کیونکہ زمانہ تو چال قیامت کی چل گیا۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz