Wo Beete Din
وہ بیتے دِن
لاہور ریلوے اسٹیشن سے جیسے ہی شیر شاہ سُوری کے جی ٹی روڈ پر دِلی کی طرف نکلتے ہیں تو جہاں دائیں طرف مغلپورہ کی ریلوے ورک شاپس کا پورا ایک شہر بچھا ہوا ہے وہیں سڑک کے بائیں طرف ہماری جوانی کی یادیں بکھری ہوئی ہیں۔
بائیں طرف ای ٹی اولڈ کیمپس ہے جس میں داخلے کے خواب دیکھتے ہوئے ہم نے ایف ایس سی کے قیمتی دو سال گوتم بُدھ کی طرح دُنیا سے منہ موڑ کر گزارے اور پھر داخلے کے بعد وہاں چھ سال شہنشاہوں کی طرح گزارے۔
یو ای ٹی کے ہاسٹل میں ہم نے اپنے کمرے کے ساتھ ایک ڈمی الاٹمنٹ بھی کرائی ہوئی تھی۔ دوسرا کمرہ دراصل ہمارا ڈیرہ تھا جہاں گاؤں سے آئے مہمان رہتے، پنجاب یونیورسٹی کے مسئلے حل کراتے، پنجاب سیکرٹریٹ میں تقرر و تبادلے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے یا پھر لاہور کے سیر سپاٹے کو جاتے۔
امتحان کے دنوں میں ہم اپنے کمرے اور ڈیرے دونوں سے راہِ فرار اختیار کرتے اور جی ٹی روڈ پر واقع یو ای ٹی کے سینٹر آف ایکسیلنس ان واٹر ریسورسز یا (اعلی ادارہ برائے تحقیق آبی وسائل) کی لائبریری میں بیٹھ کر تیاری کرتے۔
ادارے کی لائبریری میں صرف ایم ایس سی یا پی ایچ ڈی کے طلبا کو داخلے کی اجازت تھی مگر ہم نے لائبریرین کی منت ترلہ کی ہوئی تھی کہ ہم یو ای ٹی کے پوزیشن ہولڈر ہیں لہٰذا ہمارے ساتھ شفقت کا برتاو کیا جائے۔ تاہم ڈائریکٹر یا کسی سینیئر ٹیچر کے لائبریری میں آنے پر ہمیں دائیں بائیں ہونا پڑتا تھا۔
آج یو ای ٹی کے اسی سینٹر آف ایکسیلنس ان واٹر ریسورسز کے بورڈ آف سٹڈیز کے حوالے سے میٹنگ ہے اور میں اس میں الحمدللہ انڈسٹری سے نمائندے کے طور پر شریک ہورہا ہوں۔
سینٹر کے ایم ایس سی کے طلبا نے آبی وسائل کی مختلف جہتوں پر 15 ریسرچ پراجیکٹ بنائے ہوئے ہیں جنہیں وہ آج بورڈ کے سامنے ڈیفنڈ کرنے جارہے ہیں۔
ان کے چہرے امتحان کی آزمائش سے گزر کر اگلی منزل پانے کو بے تاب نظر آرہے ہیں اور میں ان سے بھی زیادہ بے تاب ہوں۔۔ ڈائریکٹر صاحب اور سینیئر پروفیسر ذرا ادھر ادھر ہوں تو میں نے سینٹر کی لائبریری کا چکر بھی لگانا ہے۔ میں کچھ دیر وہاں آنکھیں بند کرکے بیٹھنا چاہتا ہوں۔