Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Thal Ka Dukh

Thal Ka Dukh

تھل کا دکھ

صحرائے تھل کے سنجے ٹبوں (ٹیلوں) پر تھلوچی شاعروں نے بہت نظمیں لکھیں اور پانی کے لئے ترستے اس علاقے کی ویرانی کے لئے لہور شہر کی سڑکوں پر کھلتے پھولوں تک کو ذمہ دار ٹھہرا دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحرائے تھل کے وسیع علاقے پر آج بھی بارانی فصلیں کاشت ہوتی ہیں جن میں چھولے کی فصل ایک "کیش کراپ " ہے۔ اکتوبر تا دسمبر تک یہاں کے لوگ اس لق و دو صحرا میں اپنے اپنے رقبے پر "نالی" (ہل) پھیر کر بیج ڈال دیتے ہیں اور پھر مالک کی رحمت کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ "رت " تھل میں توکل کی رت ہوتی ہے جب پورا تھل مالک کے وعدے پر بیج ڈال کر مطمئن بیٹھ جاتا ہے۔

توں ڈیوا بال کے رکھ چھوڑیں

ہوا جانڑے، خدا جانڑے

اگر دسمبر، جنوری میں کچھ رم جھم ہوجائے تو اس موسم میں یہ سارے ٹبے چھولے کی پینیری سے سبز ہوجاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے صحرا میں ایک بہت بڑا سبز قالین سا بچھا دیا ہو۔ پنیری پر موسم بہار میں پھول بننا شروع ہوتے ہیں تو ساتھ ہی "پلی" کا ساگ شروع ہوجاتا ہے جس کا ذائقہ بے مثال ہوتا ہے۔ "پلی" سبز سلاد کے طور پر بھی کھائی جاتی ہے جس کا ذائقہ نمکین ہوتا ہے۔ جب پلی پر پھول تھوڑا بڑے ہوتے ہیں تو "ڈڈۓ" بن جاتے ہیں۔ جن سے سبز چھولے نکال کر اس کی دال پکائی جاتی ہے جو کہ غذائیت اور ذائقے سے بھرپور ہوتی ہے۔

"پلی" کا ساگ اور سبز چھولوں کی دال کے لئے "گھاڑیں " (چنے کے سبز پودے) خاص خاص دوستوں کو بطور تحفہ بھیجی جاتی ہیں۔ مارچ میں یہ ڈڈۓ جوان ہوکر کٹائی کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یہ موسم تھل میں بھر پور سرگرمی کا ہوتا ہے۔ جگہ جگہ تھریشر لگ جاتے ہیں۔ ویران ڈیرے آباد ہوجاتے ہیں اور فصل اٹھانے، منڈی تک بھیجنے اور کچھ رقم ہاتھ میں آنے پر سال بھر کی رکی ہوئی شادیوں کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ تھالی اور گھڑے کی تاپ پر دوہڑے ماہئے گائے جاتے ہیں۔

یہ ساری سرگرمی بارش کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ اگر بارشیں کم ہوں، وقت پر نہ ہوں یا خشک سالی ہو تو پھر تھل واقعی اجڑ جاتا ہے۔ زمیندار دباؤ میں آجاتے ہیں۔ مقامی معیشت کا پہیہ رک جاتا ہے۔ بچوں کی شادیاں لیٹ ہوجاتی ہیں لیکن شہروں کی سڑکوں پر خشک سالی کے باوجود بھی ہر سال موسم بہار میں پھول کھلتے ہیں کیونکہ وہاں پر پانی کی فراہمی کا مسلسل انتظام ہوتا ہے۔ یہ بڑے ایوانوں والے بھی تو صرف شہروں کا ہی سوچتے ہیں ناں۔ حالانکہ تھل میں قطری شہزادے بھی شکار کا شوق پورا کرنے کے لئے ہرسال سرکاری مہمان بنتے ہیں۔

تھل کی سیرابی کے لئے گریٹر تھل کینال کا منصوبہ شروع ہوا تھا لیکن اس کا ایک حصہ مکمل ہونے کے بعد یہ کام بھی اب ٹھپ ہو گیا ہے کیونکہ صوبوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہے حالانکہ ایشین بنک اس منصوبے کے لئے قرضہ دینے کو بھی تیار ہے۔ اس سال تھل میں مالک کی مہربانی سے اچھی بارشیں ہوئی تھیں اور وقت پر ہوئیں اور زمینداروں کے چہرے کھل اٹھے تھے کہ اس سال "بمپر کراپ" (فصل) ہوگی۔ تاہم چند دن پہلے نورپور کے علاقے میں ہونے والی ژالہ باری نے چنے کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے (ویڈیوز دیکھئے) اور چنے کی پیداوار کم ہونے کا خدشہ ہے۔

قرض لے کر کاشت کاری کرنے والے کسان رل گئے ہیں۔ مالک ناراض ہو گیا ہے۔ ان کسانوں کے نقصان کے مداوے کے لئے حکومتی سطح پر کچھ اقدامات ہونے چاہیئں۔ سندھ ساگر، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے کنارے پانی کے لئے ترستے میانوالی، خوشاب، بھکر اور لیہّ کے اضلاع کے ان خوب صورت علاقوں کے بارے میں کون سوچے گا؟ بقول افضل اعجاز

شاہر تیڈے دی سڑکاں تے وی چنبا مروا کھلداے

تھل میڈے دے سنجے ٹبے بارش کیتے لہندن

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz