Sohni Ka Chenab Bhi Khushk Ho Raha Hai
سوہنی کا چناب بھی خُشک ہورہا ہے
باوجود اس کے کہ دریائے چناب میں آج 2 لاکھ کیوسک سے زیادہ بڑے سیلابی ریلے کی پیش گوئی ہے۔ دریائے چناب انڈیا کا پاور کوریڈور بننے جا رہا ہے جس پر 70 سے زیادہ ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن بنانے کے منصوبے مختلف مرحلوں میں ہیں جن سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار ہمارے منگلا اور تربیلا ڈیم کی کل پیدا ہونے والی بجلی سے زیادہ ہوگی۔
بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے دریائے چناب پر دو نئے ہائیڈروپاور پلانٹس کی تعمیر شروع کردی ہے۔ دونوں متنازعہ ہائیڈرو پراجیکٹس – 624 میگا واٹ کے" کیرو" اور540 میگا واٹ کے "کوار"- کے ڈیزائن انڈس واٹر ٹریٹی کی شقوں کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔
دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔
انڈیا کے سنٹرل واٹر کمیشن نے حال ہی میں وادی کشمیر میں دریائے چناب پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ نوٹ کیا ہے جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی سے گلیشئیرز کا پگھلنا بتایا گیاہے۔ لہذا پانی کی اضافی فراہمی سے مقبوضہ وادی میں نئے بننے والے تمام ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کی استعداد پچیس فی صد بڑھا دی گئی ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دریائے چناب سے مرالہ کے مقام پر پاکستان میں داخل ہونے والا پانی ہر سال کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ اضافی پانی پاکستان کیوں نہیں پہنچ رہا؟
دریائےچناب سندھ طاس معاہدے سے پہلے سالانہ 26 ملیئن ایکڑ فٹ پانی پاکستان میں لاتا تھا لیکن اس کا پانی اب کم کیوں ہوگیا ہے؟ حالانکہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے چناب پر پاکستان کا حق تسلیم شدہ ہے۔
انڈیا میں دریائے چناب کی لمبائی پانچ چھ سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں لیکن اتنی کم لمبائی میں اتنے زیادہ منصوبے لگانے کی وجہ سے یہ بہتا دریا مُردہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ دریا میں پانی کا قدرتی بہاؤ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ آبی مخلوق کی تہذیب برباد ہوجائے گی اور وادی کے بہت سے لوگ بے گھر ہوکر دربدر ہو جائیں گے۔
ہماچل پردیش میں جہاں سے اس دریا کا سفر شروع ہوتا ہے وہاں صرف سو کلومیٹر کی لمبائی میں چناب پر 50 ہائیڈروالیکٹرک پاور پلانٹ تعمیر ہورہے ہیں یعنی ہر دو کلومیٹر کے بعد ایک پاور پلانٹ۔ ریاست جموں اور کشمیر پہنچنے پر یہ صورت حال اور گھمبیر ہو جاتی ہے جہاں چناب پر بڑے سائز کے ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف جموں کش میر میں چناب سے بجلی کی پیداوار 9000 میگاواٹ ہوگی جوکہ پاکستان کی موجودہ ہائیدڑوالیکٹرک کی پیداوار کے تقریباً برابر بنتی ہے۔
540میگا واٹ کیپسٹی کا نیا بننے والا کیرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے چناب کے کنارے پتھرناکی اور کیرو گاؤں کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے، جو کشتواڑ سے تقریباً 42 کلومیٹر دور ہے۔ اسی طرح 624 میگاواٹ کا "کیرو" ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ مقبوضہ کشمیر میں رن آف ریور سکیم کے طور پر بنایا جا رہا ہے اس کا سنگ بنیاد 2019 میں رکھا گیا تھا اور امید ہے کہ یہ سال 2025 میں بجلی بنانا شروع کردے گا۔ کیرو کے قریب 135 میٹر اونچا کنکریٹ گریویٹی ڈیم کی تعمیر شامل ہے۔
پاکستان کو دریاوں پر رن آف رِور پراجیکٹس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ بہتے دریا کے ان منصوبوں کے لئے جتنی سٹوریج چاہئے ہوتی ہے بھارت اس سے کئی گنا بڑی سٹوریج بنالیتا ہے اور یوں پاکستان کا پانی رک جاتا ہے۔ اسی طرح ان منصوبوں کے گریوٹی ڈیم میں نچلی آوٹ لٹ نہیں رکھی جاتی، اسپل وے اونچا رکھ دیا جاتا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ سندھ طاس منصوبے کے برخلاف پاکستان کو ان منصوبوں کے ڈیزائین کی تفصیلات معلومات نہیں دی جاتیں یا پھر غلط معلومات دی جاتی ہیں اور یا اتنی دیر سے معلومات دی جاتی ہیں کہ پاکستان کے پاس اپنا رد عمل دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے مطابق پاکستانی وفد کو ان منصوبوں کی تعمیر سے پہلے یا تعمیر کے دوران دورہ بھی نہیں کرایا جاتا۔
ہندوستان بجلی کے ان منصوبوں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستانی اعتراضات کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اِن کا موقف ہے کہ چونکہ وہ پانی کا رُخ دریا سے دوسری طرف نہیں موڑ رہے بلکہ چلتے پانی سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اِس لئے پاکستان کو اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر پنجال کے قدرتی پہاڑی سلسلے کی وجہ سے چناب کے پانی کو باقی ہندوستان کی طرف موڑنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔ وادی میں دریائے چناب کی قدرتی ڈھلوان بھی ایک کلومیٹر کے بعد 24 میٹر ہے جسے استعمال کرکے انڈیا بجلی بنانا چاہتا ہے۔
تاہم صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں۔ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے دریا پیر پنجال کے نیچے سے گزار کرکے جانا اب تکنیکی طور پر ممکن ہے گو یہ مہنگا پڑے گا۔ بھارتی منصوبوں پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب خاموشی سے اپنے حق سے دستبردار ہونا ہے۔ پاکستان کے پاس باقی بچ جانے والے پانی کے وسائل پر اپنا حق جمانے اور انہیں جلد از جلد تعمیر و فعال کرنے کے منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔