Selabi Panion Ki Cholistan Tak Rawani
سیلابی پانیوں کی چولستان تک روانی
اگر سوشل میڈیا پر شئیر ہونے والی تصویروں کو آپ خشک سالی سے مرتے ہوئے چند جانوروں کی تصویریں سمجھ رہے ہیں تو جان لیجئے کہ چولستان کی لولی لنگڑی معیشت کا سارا دارومدار ہی ان مویشیوں کی افزائش پر ہے۔ چولستانیوں کے لئےان جانوروں کی موت خاندان کے جوان پتر کی موت ہے۔ چولستان میں خشک سالی اگرچہ سال بدل بدل کر آتی ہے لیکن آتی ضرور ہے۔ کبھی شدید تو کبھی کم شدید۔
یہ ایک سخت بنجر زمین ہے جہاں بارش کم اور ناقابل اعتبار ہے۔ چولستان میں پانی کا سارا دارومدار ہی اس غیر یقینی بارش پر ہے۔ زمینی پانی تو ہے مگر بہت نیچے اور کھارا ہے۔ خشک سالی کی اتنی یقینی آمد کے باوجود بھی پچھلے 75 سال سے اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے عملی اقدامات کم ہی کئے گئے ہیں۔
چولستان ڈویلپمینٹ اتھارٹی اور PCRWR کی طرف سے بارشی پانی کے لئے ٹوبے، کنڈ اور بڑے تالاب تو بنا ئے گئے لیکن ان کی کم تعداد اور بارش نہ ہو نے کی وجہ سے پانی کی کمی کے مسئلے کی شدت کم نہ ہوسکی۔ نہروں کے نظام کو چولستان میں پھیلانے کو میسر پانی کی کمی، چولستانی انسانی آبادی کو کم ترجیح دینا اور متعلقہ اداروں کی سستی کی وجہ سے اب تک ایک ناممکن کار ہی سمجھا گیا ہے۔
حالانکہ اس مسئلے کا اگر کوئی بہتر حل ہوسکتا ہے تو وہ سیلابوں کے موسم میں دریاؤں کے پانیوں کا رخ اس علاقے کی طرف موڑنا ہے۔ جس کے دریاؤں پر بنے موجودہ ہیڈ ورکس اور بیراج ہی کافی ہیں۔ صرف لنک نہروں کے نظام میں کچھ بہتری لانے کی ضرورت ہوگی۔ اگرچہ یہ بالکل آسان اور سستا کام نہیں لیکن اس میں درپیش چیلنجز اس انسانی المیے کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو تقریباً ہر سال چولستان کے باسیوں کی زندگی، ان کے خواب اور ان کی تہذیب کو کھاتا جا رہا ہے۔
دریاؤں سے موڑا گیا یہ سیلابی پانی نہ صرف چولستان کے ٹوبے، کنڈ اور تالاب بھر کر ہر سال کچھ عرصہ کے لئے پانی کی ضرورت پوری کرسکتا ہے بلکہ مستقل بنیادوں پر اس کی فراہمی زیر زمین پانی کو ری چارج کرکے اس کی کڑواہٹ بھی کم کرسکتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ملک میں سیلابوں کے نقصانات کو بھی کسی حد تک کم کرسکتا ہے۔
یقیناً یہ ایک بہت مشکل اور مہنگا کام ہے مگر کلی طور پر ناممکن نہیں۔ مختلف دریاؤں کے سیلابی پانی کو موڑ کر چولستان لانے کے کچھ ممکنہ موجود مواقع اور راستے یہ ہوسکتے ہیں۔
1- دریائے سندھ کا سیلابی پانی چشمہ بیراج سے موڑنا۔
دریائے سندھ کا سیلابی پانی چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے دریائے چناب میں تریموں بیراج از مقام جھنگ میں لے جائیں۔ وہاں سے تریموں سندھنائی لنک کینال کے ذریعے چناب سے یہ سیلابی پانی دریائے راوی میں سندھنائی بیراج پر لے جائیں اور وہاں سے یہ سندھنائی میلسی لنک کینال کے ذریعے یہ سیلابی پانی سے چولستان لے جائیں۔
2-دریائے سندھ کا سیلابی پانی تونسہ بیراج سے موڑنا۔
تونسہ پنجند لنک کینال سے دریائے سندھ کا سیلابی پانی موڑ کر دریائے چناب میں ڈال دیں (ملتان کے مقام پر) اور پھر اسے پنجند بیراج سے دریائے چناب سے نکال لیں اور عباسیہ کینال کو بڑا کرکے اس کے ذریعے چولستان میں پھیلا دیں۔
3-دریائے سندھ کا سیلابی پانی تونسہ بیراج سے موڑنا۔
تونسہ پنجند لنک کینال سے دریائے سندھ کا سیلابی پانی موڑ کر دریائے چناب میں ڈال دیں (ملتان کے مقام پر)۔ یہاں ایک نیا ملتان بیراج بنا لیں اور پھر نئی ملتان جہانیاں میلسی قائم پور لنک کینال کے ذریعے چولستان میں پھیلا دیں۔
4-دریائے چناب کا سیلابی پانی۔
تریموں بیراج از مقام جھنگ سے تریموں سندھنائی لنک کینال کے ذریعے چناب سے سیلابی پانی دریائے راوی میں سندھنائی بیراج پر لے جائیں اور وہاں سے سندھنائی میلسی لنک کینال کے ذریعے یہ سیلابی پانی سے چولستان لے جائیں۔
اس کے علاوہ پنجند بیراج سے عباسیہ کینال کے ذریعے بھی نکالا جا سکتا ہے۔
نیا ملتان بیراج بنا لیں اور پھر نئی ملتان جہانیاں میلسی قائم پور لنک کینال کے ذریعے چولستان میں پھیلا دیں۔
5۔ دریائے راوی کا سیلابی پانی۔
سیلابی پانی دریائے راوی میں سندھنائی بیراج سے سندھنائی میلسی لنک کینال کے ذریعے سے چولستان لے جائیں۔
6۔ اگرچہ دریائے ستلج خشک ہوچکا لیکن اگر کبھی کبھار اس میں بھی انڈیا زیادہ سیلاب کی صورت میں پانی چھوڑ دے تو ہمارے پاس اسلام بیراج پر اسے نکالنے کا متبادل بندوبست ہونا چاہئے جو کہ چولستان میں پھیلا دیا جائے۔
یہ تجاویز صرف ایک فریم ورک فراہم کرتی ہیں اور ان پر غور کرکے مذید بہتر کیا جاسکتا ہے۔ بڑے سیلابوں کے دوران عموماً ان نہروں کو بند رکھا جاتا ہے مگر ڈیزائن میں مناسب تبدیلیاں کر کے سیلابی پانی کو ان نہروں میں بیراج سے چھوڑا جا سکتا ہے یا پھر ان تجاویز کو ناممکن سمجھ کر رد بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ایک کوشش کیوں نہ کی جائے؟
میں نے صرف موجود دستیاب مواقع کی نشاندہی کی ہے امید ہے متعلقہ ادارے اس سوچ پر پہلے ہی کام کر رہے ہوں گے۔ پاکستان کے زمینی رقبے کا 17 فی صد سے زیادہ صحرا ہے جس میں صحرائے تھل، چولستان، تھر، نوشکی اور خاران وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ تھوڑے بہت فرق سے ہر صحرائی علاقے کے لوگ خشک سالی کے اس کرب سے گزر رہے ہیں۔
اچھا ہے کہ اس مسئلہ کو اس دفعہ سوشل میڈیا پر توجہ مل رہی ہے۔ اس سے آگاہی پھیلے گی اور متعلقہ حلقوں تک بات پہنچے گی۔ تاہم چولستان کے اس مسئلے کا کوئی شارٹ کٹ حل نہیں۔ مستقل بنیادوں پر لمبے عرصے کے بعد ہی کچھ فرق پڑ سکتا ہے۔ چولستان کی انسانی آبادی کو سب سے اہم ترجیح سمجھا جائے گا تو شائد پھر ہی سیلابی اور نہری پانی کو یہاں تک پہنچانے پر سوچا جا سکے گا۔