Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Sehma Hua Jannat Ka Manzar

Sehma Hua Jannat Ka Manzar

سہما ہوا جنت کا منظر

سورج غروب ہوتے ہوتے بالآخر سمندر کے پانی کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس کی کرنوں سے سمندرکی ارتعاشی لہروں پر بننے والا نارنجی عکس ،مائع سونے کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے سورج پانی کے تھوڑا اور قریب ہوتا اور سمندر کی لہر بھی کچھ اوپر ہوکر اس کا بوسہ لینے کی کوشش کرتی لیکن ابھی کچھ پل جدائی کے باقی تھے۔ میں اس منظر میں مکمل طور پر ڈوبا ہوا تھا اور اب دھڑکا لگ گیا تھا کہ کسی بھی لمحے یہ آتشی گلابی تھال سمندر میں گر جائے گا۔

جہاز کے عرشے پر ترتیب سے میزیں رکھی ہوئی تھیں جن کے اوپر لگی چھتریاں سمندری ہوا سے پھڑپھڑا رہی تھیں۔ ان میزوں پر تیس کے لگ بھگ افراد خاموشی سے بیٹھے کھلے سمندر میں کھڑے اس جہاز سے، یہ منظر اپنے اندر کشید کررہے تھے۔ بیک گراونڈ میں انگلش میوزک چل رہا تھا۔ یہ منیلا میں میری آخری شام تھی اور میں "بے واک" پر بنے سیاحتی مرکز کے "سن سیٹ کروز شپ "پر خصوصی ٹکٹ لے کر رانا صاحب کے ساتھ کھلے سمندر میں سورج غروب ہونے کا نظارہ کررہا تھا۔

جیسے ہی سورج غروب ہوا جہاز پر چہل پہل شروع ہوگئی پھر بوفے ڈنر کھلنے کا اعلان ہوا اور لوگ قطار بنا کر سیڑھیوں سے جہاز کے تہہ خانے میں اترنے لگے اور اپنی اپنی باری پر مختلف قسم کے کھانوں کی ڈشوں سے اپنی اپنی پلیٹ میں پسند کی چیزیں ڈال کر، دوبارہ عرشے پر آ بیٹھے اور ہلکی پھلکی گپ شپ کے ساتھ کھانا انجوائے کرنے لگے۔ ڈیڑھ دو گھنٹہ کھانے کا دور چلتا رہا اور اس کے بعد جہاز نے سمندر سے منیلا بے واک واپسی کی راہ لی۔ جہاز سے اترتے ہوئے تہہ خانہ صاف شفاف نظر آیا جیسے یہاں کبھی کھانا لگایا ہی نہ گیا ہو۔

چند ماہ گزرتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر سورج غروب ہوتے ہوتے سمندر کے قریب پہنچ چکا تھا اور میں اپنے پسندیدہ منظر کو دیکھنے کے لئے ساحل سمندر پر بنے ایک اچھے ریسٹورنٹ کی سب سے عمدہ میز پر اپنے دوستوں کے ہمراہ قابض ہوچکا تھا۔ پانی میں غروب آفتاب کا منظر ہمیشہ سے ہی مجھے پسند ہے۔ میں اس منظر کو اپنے اندر سمونا چاہ رہا تھا۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا اور ہم ایک اہم میٹنگ کے لئے ایمرجنسی میں کراچی پہنچے تھے اور افطار بوفے کے لئے اس مشہور ریسٹورنٹ میں پہنچے ہوئے تھے۔ سورج اور کرنوں نے آنکھ مچولی شروع کی ہوئی تھی اور کراچی کے غمزدہ سمندر کے پانی پر ایک دفعہ پھر کرنوں کا سیال سونا بہنے لگا تھا۔

ریسٹورنٹ کا ڈائننگ ہال لوگوں سے بھر چکا تھا۔ ہوٹل کے باہر ہاؤس فل کا بورڈ لگ چکا تھا۔ میں سمندر میں غروب آفتاب کے منظر کو دیکھنے میں پوری طرح فوکس ہوچکا تھا۔ مجھے دو مہینے پہلے منیلا کا غروب آفتاب یادآرہا تھا۔ مجھے جہاز کا عرشہ، بیک گراونڈ میوزک اور کھانے کے لئے تہہ خانے کی سیڑھیوں کی قطار تک یاد تھی۔

تاہم میرے ارد گرد دوسری میزوں پر بیٹھے لوگ غروب آفتاب کے جنت نظیر منظر سے منہ موڑ کر ان اسٹینڈ ز پر نظریں جمائے بیٹھے تھے جن پر سموسے، پکوڑے، فروٹ چاٹ، مختلف قسم کی چٹنیاں، پھل، کجھوریں چن دی گئی تھیں۔ باربی کیو کی خوشبو اشتعال دلا رہی تھی۔ روسٹڈ مرغ پیس ،روزہ داروں کے صبر کا آخری امتحان لے رہے تھے جو کہ غروب ہوتے سورج کے منظر سے بے پرواہ ہوکر روزہ افطار ہونے کا اعلان سننے کے لئے بے چین تھے۔

سورج نے افق پر سمندر کا بوسہ لیا اور اس کے ساتھ ہی لہروں نے اوپر اٹھ کر اس کے لمس کو محسوس کیا۔ ایک شور بلند ہوا اور قیامت برپا ہوگئی۔ روزہ کھلنے سے پہلے بندے کھل گئے تھے۔ بڑے بڑے تھالوں سے کھانے کی پلیٹیں بھر بھر کر میزوں پر منتقل ہونے لگیں۔ لوگوں کے ٹکرانے سے کھٹی میٹھی چٹنیاں گرنے لگیں اور اچھے خاصے منظر کا ستیاناس ہوگیا۔

ہم نے کھجور سے افطاری کرتے ہوئے اپنی نظریں ڈوبتے سورج کے بعد نارنجی سے سرخ اور پھر سیاہ ہوتے پانی پر مرکوز رکھیں اور کان بند کرکے امریکن میوزک سننے کی کوشش شروع کردی۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم منظر سے نکل کرکھانے کی طرف متوجہ ہوئے تو ڈشوں کو خالی اور میزوں کو صائمین کےبچے ہوئے کھانے سے اٹا ہوا پایا۔ ریسٹورنٹ کے ہال کا فرش کھانے اور چاٹ گرنے سے لتھڑ چکا تھا اور ساتھ ہی جنت نظیر منظر بھی سہم چکا تھا۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi