Sardar Doda Khan Ki Riyasat Karakh Ki Yatra
سردار دودا خان کی ریاست کرخ کی یاترا
کرخ کا پہلا سفر اس منصوبے کے لیے 29 اگست 2019 کو کیا تھا جو کہ اب الحمد للہ مکمل ہو چکا ہے۔ آپ خضدار کی تحصیل کرخ میں دریائے کرخ پر بنائی جانے والے پانی موڑ بیراج کو دیکھ سکتے ہیں جن سے سینکڑوں ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے۔ ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے یہ منصوبہ حال ہی میں مکمل ہوا ہے۔
علاقے کو مشرق میں کیرتھر کے غیر معمولی طور پر عمودی پہاڑی سلسلےُ اور بقیہ تینوں اطراف سے خضدار کے پہاڑوں نے گھیر کر ایک قدرتی قلعے کی شکل دے دی ہے اوراس کے اندر جانے کا ایک ہی راستہ وہ تنگ اور پتلا سا درہ ہے جسے کرخ دریا نے صدیوں کی کوششوں سے بنایا ہے اور یہی زمینی ساخت شائد وہ مضبوط وجہ تھی کہ جس نے ارد گرد کے سرداروں کو یہاں مہم جوئی سے باز رکھا اور میلوں پر مشتمل اس قدرتی قلعے کے اندر وادئی کرخ میں سردار دودا خان اپنی تمام تر پست قامتی کے باوجود لوگوں کے دلوں پر راج کرتا رہا۔ اس کی غیر معمولی معاملہ فہمی کی وجہ سے اسے خان آف قلات کے دربار میں ایک خاص مقام حاصل رہا جس سے اکثر سردار خار کھاتے تھے۔
خضدار کے خوب صورت اری گیشن ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرنے کے بعد روانگی پکڑی تو میرے ساتھ لاہور سے جانے والے ساتھی کئی اندیشوں میں مبتلا تھے۔ تاہم جب M-8 پر روانہ ہوئے تو گزشتہ رات کے دریائے مُولہ کے کچے کے خطرناک سفر کی تلخ تجربات ذہن سے محو ہونے لگے۔ ہم گزشتہ پانچ روز سے مسلسل سرزمین بلوچستان کے ان دیکھے پتھریلے آبی راستوں کے سفر پر تھے اور پچھلی رات اندھیرے میں دریائی راستے کا خطرناک سفر کر چکے تھے جوکہ خدا خدا کرکے منیالو، رائیکو اور رند علی کے مثلثی گاوں پر ختم ہوا تھا تو ہمارے پاؤں تلے زمین آئی تھی۔ وہ منیالو جسے دیکھ کر مجھے "میلانو" یاد آگیا تھا۔
ہم تنگ درے پر وادی کرخ میں داخل ہوئے تو میں دونوں طرف کے اونچے پہاڑوں کو غور سے دیکھنے لگا کہ شائد جن کی چوٹیوں پر ابھی تک موجود کرخ قلعے کے محافظ دہکتے انگاروں سے بھری دیگیں ہی نہ ہم پرالٹا دیں۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہم وادی کرخ کے استقبالی میدان میں داخل ہوئے کہ جس کے اندر دریا نے گول دائرے کی شکل میں کلومیٹر قطر والا بیلا بنایا ہوا تھا جو کہ سبزے سے بھرا ہوا تھا۔ دریا کے اوپر بنے سڑک کے پل سے ہی ہمیں دور سے اس بیلے میں موجود دوسری چھوٹی پہاڑی نظر آگئی تھی جس کے دونوں اطراف سے دریا کا پانی گزرتا تھا۔
یہ سرادار دودا خان کی سلطنت کی دوسری دفاعی لائن رہی ہوگی کیونکہ اس کو کراس کرتے ہی آپ ایک ایسی سرسبز وادی میں داخل ہوتے ہیں جہاں قدرتی نظارے آپ کو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد کر دیتے ہیں۔ اس علاقے میں سب سے منصوعی چیز M-8 موٹروے کی میلوں لمبی کالی لکیر ہے۔ لُک سے لگی یہی لکیر ہی قدرتی قلعے میں قید اس خوب صورت وادی کو کیرتھر کی آسمان سے باتیں کرتی پہاڑی چوٹیوں کے اس پار بی بی شہید کے علاقے لاڑکانہ سے ملاتی ہے اور اس علاقے کو سکھر تا پشاور موٹر وے سے رابطے کے لئے کھولتی ہے۔
وادی میں کرخ دریا بھی تھوڑی دیر کے لئے آکر رک جاتا ہے اور اس کا اس وادی سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ دیر ادھر ٹھہرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اس وادی میں اس نے اپنا پاٹ کلومیٹروں چوڑا کرلیا ہے جس کے اندر لگی ہوئی سبز "کوندر" کے اندر کرخ آہستہ آہستہ بے مقصد ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے۔ یہاں اس نے دائیں بائیں سے کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں بنالی ہیں جن میں یہ اٹھکیلیاں کرتا رہتا ہے اور اس میں نہانے اور مچھلیاں پکڑنے والے بچوں کی موج لگی رہتی ہے۔ تاہم اگر بچے اسے زیادہ تنگ کریں تو پھر کبھی کبھار یہ بپھر جاتا ہے۔ لیکن ان بچوں اور نوجوانوں نے بھی اس کی طبیعت کو اتنا جانچ لیا ہے کہ اس کے بدمست ہونے کی آواز کو کافی دور سے سن لیتے ہیں اور آس پاس کے گاوں کی اونچی زمینوں پر بھاگ جاتے ہیں اور اس کے شانت ہوتے ہی پھر سے نہانے نکل آتے ہیں۔
کرخ دریا کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے گاوں آباد ہیں جہاں کے باسیوں نے وقفے وقفے سے دریا میں بند لگا کر دونوں کناروں کی ہموار زمینوں کو پہاڑوں کے دامن تک سیراب کرنے کا نظام ترتیب دے رکھا ہے اور یہی ہمارے اس وادی میں داخلے کا سبب تھا۔ ایسے لگتا ہے جیسے سات آٹھ کلومیٹر لمبی اس وادی میں دریا کے دونوں کناروں پر ایک دبیز سبز قالین بچھا دیا گیا ہو۔ واندری، چھٹا، سن جوڑی اور لاتعداد دوسرے قصبے ہیں جہاں بسنے والوں کی کہی نسلیں امن وشانتی سے اپنی زندگیاں گزار گئیں اور ان سب کے درمیان وادی کا دل کرخ کا چھوٹا سا قصبہ کہ جس کے مین بازار میں سولر پینل سے جلنے والی سٹریٹ لائٹس لگ چکی ہیں اور شام کو دریا کنارے چائے پینے والوں کے لئے دالان بننا شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم دریا کے راستے میں ُ مداخلت کرکے بنائے گئے ان چائے خانوں سے ناراض کرخ دریا کبھی کبھار سیلابی بندوں کی قید سے آزاد ہوکر اپنی جگہ واگزار کرانے ضرور پہنچ جاتا ہے۔ سردار دودا خان ہوتا تو ضرور دریا کو انصاف ملتا لیکن اب تو 4جی انٹرنیٹ پر کرخ بازار میں بیٹھ کر فیس بک سے لطف اندوز ہونے والے سندھی ٹوپی پہنے نوجوانوں کو دریا کی بالکل فکر نہیں رہ گئی۔
کرخ دریا پر صدیوں سے پانی کی تقسیم کا ایک خوب صورت نظام قائم ہے جو کہ اس علاقے کی خوش حالی اور امن وامان کی وجہ بھی ہے۔ ہر قبیلے کو دریا کی ایک مخصوص لمبائی پر اپنے علاقے میں پانچ کیوسک تک پانی نکالنے کی اجازت ہے اور کوئی بھی قبیلہ دریا کے نیچے زیرزمین بہنے والے پانی کا راستہ بھی بند نہیں کرسکتا۔ اس نظام کے تحت اس کرخ وادی میں مختلف مقامات پر چھ سے سات جگہوں سے لوگ اپنے حصے کا پانی نکال کر اپنی اپنی زمینوں پر لمبے فاصلوں تک لے جاتے ہیں۔ دونوں طرف سے آنے والے پہاڑی ندی نالے برسات کے موسم میں اس نظام کو خوب نقصان پہنچاتے اور اپنے راستے میں ناجائز تجاوز کئے کھیتوں، گھروں اور درختوں سے لڑتے جھگڑتے بالآخر کرخ دریا تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دودا خان نے شائد ان سے بچنے کے لئے ہی اپنی ساری چیک پوسٹیں اونچی جگہوں پر بنائی تھیں جو کہ کہیں کہیں نظر آجاتی ہیں۔ وادی سبزے، کیکر اور کھجور کے درختوں سے بھری پڑی ہے۔
ہم نے وادی کے اندر دریا کو کئی دفعہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف کراس کیا اور بالآخر دودا خان کی ریاست کا یادگار سفر M-8 سے مغرب کو نکلنے والی پتلی بلیک ٹاپ سڑک پر ختم کیا جو ہمیں چوٹی پر بنے "لائٹ ہاؤس" تک لے جانے والی تھی جس کے پیچھے پہاڑیوں پر جن برسات میں جلترنگ بجاتے ہیں اور خوشی کی بات یہ تھی کہ ہم اگست کے مہینے میں میں وہاں جارہے تھے جہاں ٹارزن سے ملنے کی قوی امید تھی۔ جی ہاں ہماری اگلی منزل خارزان اور ہٹاچی کا علاقہ تھا۔