Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Saltanat e Mughlia Ke Khush Aab Ka Azab

Saltanat e Mughlia Ke Khush Aab Ka Azab

سلطنت ِمغلیہ کے خوش آب کا عذاب

مغل شہنشاہ جب لمبے سفر کے دوران دریائے جہلم کے کنارے اس مقام پر پہنچا ،تو روایت کے مطابق اس علاقے کے پانی کی مٹھاس کی وجہ سے،اس جگہ کو خوش آب کا نام دیا۔ یہ علاقہ اسے اتنا پسند آیا کہ دریا کے دوسرے کنارے شاہ پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جو کہ صدیوں تک اس علاقے کا ایک مرکزی علاقہ رہا۔خوش آب تو ترقی کرکے ضلع خوشاب کے مرتبہ کو پہنچ گیا ،مگر اس کے "خوش آب " کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ، اس کے زیرِ زمین میٹھے پانی کے سمندر "کوہ نمک" کے سلسلہ کے زیرِ زمین نمکین پانی کے حملے کو نہ سہہ سکے اور ہتھیار ڈال دئیے۔

آج مغل سلطنت قائم ہوتی تو شائد اس جگہ کا نام "کڑواب " رکھ دیتے لیکن صورت حال یہ ہے ،اپنے نمکین پانی کی وجہ سے پنجاب کا یہ ضلعی شہر ایک پانی بیزار شہر بن چکا ہے، جس کے نلوں سے بے دریغ بہنے والے کڑوے پانی کو بند کرنے میں شائد کسی کو دلچسپی نہیں۔ ہر سال موسم برسات میں کوہِ نمک کے بپھر جانے والے سیلابی پانی کے ریلوں سے ہونے والی تباہی ،اور شہری املاک اور کاروبار کی بربادی ایک الگ عذاب ہے۔

خوشاب والوں نے پانی کی اس کڑواہٹ سے بچنے کےلیے ،کئی ٹنوں کے حساب سے ڈھوڈا پتیسہ بنا کر بیچنا شروع کردیا ہے، اور اس سلسلے میں انور ڈھوڈا ہاؤس کی قدیمی سنوچڑاں والی ہٹی کی اتنی دکانیں اس شہر میں بن گئی ہیں ،کہ مین روڈ پر کوئی اور دکان نظر نہیں آتی۔ اب تو انہوں نے ڈبل سٹوری ڈھوڈے پتیسے کی دکانیں شروع کردی ہیں،لیکن پانی کی کڑواہٹ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، اور اگر آپ غلطی سے حالت روزہ میں وضو کے لئے کلی کرلیں،تو نمکین ذائقے کی وجہ سے اچھے خاصے متقی بندے کا روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

جنرل بس اسٹینڈ کے سامنے، جھال چکیاں کی مشہور دال والے ہوٹل سے کھانا کھانا مجھے بہت پسند ہے۔ ہر مہینے والدہ کی زیارت کے لیے کندیاں جاتے ہوئے یہاں دسترخوان لگتا ہے، تو اس کے واش بیسن کی ازل سے کھلی ٹونٹی نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا ،جو کہ شائد ہوٹل کے کھلنے کے بعد کبھی بھی بند نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ اس کے منیجر سے جاکر شکایت کی تو کہنے لگا " کوئی گل نئیں، لونڑا پانی اے"۔ یعنی خوشاب کے زیرِزمین پانی کی ساری کڑواہٹ شائد اس ٹوٹی کے ذریعے بہہ کر باہر نکل جائے گی۔

تاہم ہر دورے پر اس ٹوٹی کو بند کرنا اور منیجر سے بات کرنا اپنی روٹین میں شامل ہے ،کیونکہ پانی نمکین بھی ہوتو تب بھی اسے گٹر میں بہانے کا کیا تک ہے؟ کیا آپ جلی ہوئی روٹی کے اوپر پاؤں رکھ کر چل سکتے ہیں؟ بھئی یہ نمکین پانی بھی اللہ کی نعمت ہے، اس کی قدر کرو۔اس صورتحال کا اصل فائدہ "اولمپیا گروپ " والوں نے اٹھایا ہے، جنہوں نے کوہ نمک کے دامن میں اپنا کیمیکل پلانٹ لگا کر، اس پانی کو "را میٹیرئیل "کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، کاسٹک سوڈا اور دوسرے کیمیکل بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیئے ہیں۔

یہ "لونڑا" پانی کئی اور صنعتوں میں بھی استعمال ہوسکتا ہے، شائد جس کے بارے میں برادر انجنئیر سلیم بھائی المعروف ابن فاضل بہتر بتا سکتے ہیں، یا پھر مرشد عارف انیس لوگوں کو موٹی ویٹ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈی سیلی نیشن پلانٹس لگا کر کم ازکم نمکین پانی کو دوبارہ "خوش آب " بھی بنایا جاسکتا ہے، تاکہ نہ صرف عام لوگوں کو پینے کے کئے میٹھا پانی مل سکے ،بلکہ مغل بادشاہ کا بھرم بھی قائم رہ سکے۔فی الحال تو میں واش بیسن کی لونڑے پانی والی ٹونٹی، دوسری دفعہ بند کرنے کے بعد انور ڈھوڈا شاپ سے پتیسہ لینے جارہا ہوں۔

Check Also

Grounding

By Tauseef Rehmat