Oye Roza Band Kar Deo
اوئے روزہ بند کر دیو!
صرف پکوڑے ہی برصغیر کی افطاری میں فرض نہیں ہوئے بلکہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز سے سحری کے وقت نشر ہونے والےسنسنی خیز اعلانات بھی اس کے برابر اہمیت رکھتے ہیں۔ عوام کا " تراہ " نکالنے والی یہ پرلطف عبادت برصغیر پاک و ہند کا ہی خاصہ ہے۔ دنیا کے شائد ہی کسی اور اسلامی ملک میں سحری کے وقت اتنا اجتماعی شور سننے کو ملے گا۔
یہ اعلانات سحری کا وقت ختم ہونے سے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹہ پہلے شروع ہوتے ہیں۔ ابتدا میں یہ اعلانات بڑے ٹھہر ٹھہر کے سلجھے ہوئے لکھنوی اردو معلی کے لہجے میں ہورہے ہوتے ہیں جیسے
"حضرات براہ مہربانی اٹھ کر سحری کی تیاری کرلیں"۔
حالانکہ حضرات کی بجائے یہ تیاری تو خواتین نے کرنی ہوتی ہے۔ حضرات نے تو آخری پانچ منٹ میں ٹی ٹونٹی کھیلنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے اعلانات خالص مردانہ معاشرے کی علامت ہے لیکن حقوق نسواں کی کسی بھی تنظیم نے آج تک اس پر آواز نہیں اٹھائی۔ حالانکہ مسجد سے یہ اعلان ہونا چاہئے کہ
" معزز خواتین۔ براہ مہربانی اٹھ کر سحری کی تیاری شروع کریں۔ اور غفلت کی نیند سوئے مرد حضرات کو بھی جگا دیں"۔
جیسے جیسے سحری کا وقت ختم ہونے کے قریب آرہا ہوتا ہے تو اعلانات کی زبان میں بھی تیزی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ لب و لہجہ اب لکھنوی کی بجائے صابر شاکر اور کامران خان والا ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت مزید گزرتا ہے تو پھر شاہ زیب خان زادہ اسٹائل میں سنسنی خیز اعلانات شروع ہوجاتے ہیں کہ وقت بہت ہی کم ہے اور آخری چند منٹ میں تو بالکل مولا جٹ اسٹائل میں اعلانات شروع ہوجاتے ہیں کہ
"کھانا پینا بند کردیو اوئے"۔ " اوئے روزہ بند کر دیو۔ ٹائم ختم ہوگیا ہے"۔
"تسی نئیں رہنا اوئے۔ کٹ اوئے۔ وسل وجاؤ اوئے "۔ وغیرہ وغیرہ
اعلانات کی اس نیک روایت کو مڈل کلاس اور کچی آبادی والوں نے آج تک اپنی اصل روح سے بڑھ کر برقرا رکھا ہوا ہے۔ گاؤں کی مساجد کے اعلانات سب سے دلچسپ ہوتے ہیں جہاں اعلان کرنے کی سعادت حاصل کرنے میں پہل حاصل کرنے پر بعض اوقات دو پارٹیوں کی عزت اور ناموس کا مسئلہ بن جاتا ہےاور صورت حال نارمل کرنے کے لئےکبھی کبھار تو ہفتہ ہفتہ یا دو دو، چار چار دن کی باریاں لگتی ہیں۔
دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب گاؤں آس پاس کی دو مساجد کی گھڑیاں دو چار منٹ آگے پیچھے ہوتی ہیں تو دونوں مسجد والوں نے اپنی اپنی گھڑی کے مطابق سحری کے ختم ہونے کے وقت میں دو چار منٹ آگے پیچھے بتا بتا کر پوری آبادی کو کنفیوز کیا ہوتا ہے اور بعض اوقات تو لاؤڈ اسپیکر پر ہی کراس ٹاک شروع ہوجاتی ہے کہ
" ساڈی مسجد دی گھڑی دا ٹائم ٹھیک اے"۔
بچپن میں ہمارے قصبے کندیاں کی غوثیہ مسجد سے ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہوئے ایک بزرگ سحری کے وقت بڑی نستعلیق اردو لہجے میں سحری کے اعلان کرتے تھے جو ہم سرائیکی لب و لہجہ والوں کے دل کو بہت بھاتا۔ میرے ایک کزن نے ہمارے محلے کی مسجد میں انہی کے لب و لہجہ کو نقل کرتے ہوئے اعلانات شروع کئے اور ان کی کاپی میں یہاں تک نکل گئے کہ ان بابا جی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
ایک دن بابا جی کے بچوں کو لوگوں نے میرے کزن کے خلاف بھڑکایا کہ اس اسٹائل کو اس طرح کاپی کرنے میں آپ کے باپ کی ہتک ہوتی ہے تو وہ میرے کزن کو سحری کے وقت پھینٹی لگانے ہمارے محلے کی مسجد میں پہنچ گئے۔ کزن صاحب مسجد کے باتھ روموں میں چھپ گئے۔ خوب شور شرابا ہوا اور پھر معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ آج کے بعد میرا کزن اردو کی بجائے سرائیکی میں ہی اعلان کیا کرے گا۔
تاہم عادت سے مجبور یہ نوجوان زبان کے چسکے کے لئے درمیان میں پھر بھی کبھی کبھی لکھنوی اردو میں بھی ایک آدھ اعلان ضرور داغ دیتا جس پر پوری آبادی ہنس رہی ہوتی۔ ایک روایت کے مطابق برصغیر میں سحری کے اعلانات کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب لاؤڈ اسپیکر مقامی طور پر تیار ہونا شروع ہوا اور علما نے اس کا دینی مقاصد کے لئے استعمال بالکل حلال اور جائز قرار دے دیا۔
اس وقت چونکہ گھڑی شائد ہی کسی کے پاس ہوا کرتی تھی لہٰذا طے پایا کہ عوام الناس کی سہولت کے لئے انہیں اجتماعی طور پر خبردار کرنے کے لئے اعلانات مسجد کے اسپیکر پر شروع کئے جائیں۔ تاہم آج کل کے دور میں جب ہر خاص و عام کے پاس موبائل فون میں گھڑی موجود ہے تو پھر ان سنسنی خیزاعلانات کا "تک" نہیں بنتا۔
سحری کے اعلانات سے گھریلو خواتین سب سے زیادہ تنگ ہوتی ہیں کیونکہ وہ صبح بہت جلدی اٹھ کر سب کے لئے کھانا بناتی ہیں اور پھر صاحب لوگوں کے اٹھنے کا انتظار کرتی ہیں جو ہر پانچ منٹ بعد مزیذ پانچ منٹ کے لئے سو جاتے ہیں حتٰی کہ سحری کا وقت ختم ہونے والا ہوتا ہے جب وہ اٹھ کر اچانک دوڑ لگا دیتے ہیں اور منہ پر پانی کے دو چھینٹے مار کر دستر خوان پر " در فٹے منہ " بیٹھے ہوتے ہیں۔
لیکن اس نازک وقت میں بھی انہیں توے سے اتری تازہ تازہ گرم روٹی یا پرونٹھا چاہئے ہوتا ہے اور ساتھ کڑک چائے بھی اور خواتین نے پھر اس کے بعد سحری شروع کرنا ہوتی ہے۔ آخر میں جب خواتین کھانا کھانے بیٹھتی ہیں توا سی وقت ادھر سے ایک صاحب جو لاؤڈ اسپیکر پر ہر پانچ منٹ بعد سحری کا وقت کم ہونے کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں فوراََ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ "کھانا پینا بند کردو۔ سحری کا ٹائم ختم ہوگیا ہے"۔
ایک نامعلوم ریسرچ کے مطابق عورتوں میں بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری کی دوسری بڑی وجہ سحری کے وقت کے یہ اعلانات ہیں جو عورتوں کو صور اسرافیل کی مانند لگتے ہیں۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام کے شروع کے دور میں چونکہ گھڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں تو پھر یہ منٹوں، سیکنڈوں میں سحری کا وقت ختم ہونے والی انتہائی باریک تفصیلات والے احکامات کیسے پورے ہوتے تھے؟
اور بالفرض اگر خوش قسمتی سے منٹوں، سیکنڈوں کا یہ حساب کتاب اتنا ہی اچھے طریقے سے کیلکولیٹڈ ہے تو پھر رمضان اور عید کے چاند کے سلسلے میں اس حساب کتاب پر کیوں عمل نہیں کیا جاتاااور پوری قوم کو تقسیم کرکے رویت حلال کمیٹی کے چاند نظر آنے یا نہ آنے کے اعلان انتظار کی سولی پر کیوں لٹکایا جاتا ہے؟ کیوں نہیں اس عمل میں بھی جدید سائنس کا سہارہ لیا جاتا؟
یہاں تک ہی لکھا تھا کہ ساتھ والی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہونا شروع ہوگیا ہے کہ"۔ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے" روزہ بند کردیو اوئے"۔
لہٰذا، ربّ راکھا۔