Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (9)
معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (9)
صبح ژوب ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرنے کے بعد موسی خیل کی طرف روانگی کا پروگرام تھا۔ موسی خیل بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جو نوے فی صد سے زیادہ بلوچستانیوں نے بھی دیکھا ہوا ہی نہیں ہے۔ یہ بلوچستان کے سرکاری اداروں میں "موسی جیل" کے نام سے مشہور ہے کیونکہ کوئی سرکاری افسر ادھر نہیں جانا ہی نہیں چاہتا۔ تاہم جتنا مشکل یہاں جانا اور کام کرنا ہے اتنا ہی خوب صورت یہ علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ سخت مزاج لیکن مہمان نواز ہیں اور یہ پورا علاقہ فطری مناظر اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔
یہاں یہ روایات بھی ہیں کہ دارلحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرتے وقت موسی خیل بھی پاکستان کے ہر علاقے سے برابر فاصلے، اپنے خوب صورت نظاروں اور بہترین موسم کی وجہ سے نئے دارلحکومت بنانے کےلئے منتخب کئے گئے علاقوں کی فہرست میں شامل تھا۔ اگر پاکستان کے نقشہ کو غور سے دیکھیں تو واقعی موسی خیل ہر طرف سے برابر فاصلے پر ہی ملے گا۔
ژوب سے موسی خیل جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ جنوب میں مرغہ کبزئی کی طرف سے اور دوسرا شمال میں ڈی آئی خان روڈ سے ہے۔ ژوب سے شمال میں ڈی آئی خان جانے والی قومی شاہراہ N-50پر کوئی ساٹھ کلومیٹر جانے کے بعد سنگھر چیک پوسٹ آتی ہے اور یہیں سے آپ اس کچے پکے راستہ پر سفر شروع کرتے ہیں جو "توئی سر " سے ہوتا ہوا موسی خیل پہنچتا ہے۔ ہم اس بین الاضلاعی کچی سڑک پر سفر کرکے حیران ہوئے کیونکہ اس دور میں بھی ملک کے باقی علاقوں میں گاوں گاوں میں پختہ سڑک پہنچ چکی تھی۔ قومی شاہراہ سے اس کچے راستے پر مڑتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے جیسے آپ قومی دھارے سے کٹ گئے ہیں۔
ملک کے اس بھلائے گئے حصے کے لئے ٹھنڈی مشینوں والے کمروں میں بیٹھے بابوؤں نے NPIW-1 پراجیکٹ کے پی سی ون میں کسانوں کی واٹر یو زر ایسوسی ایشن بنانے اور ان کے بنک اکاونٹ کھلوانے کی شرائط لگائی ہوئی تھیں حالانکہ اس دور میں پورے ضلع کا واحد بنک موسی خیل بازار میں تھا جہاں ان دوردراز علاقوں اور سیلابی نالوں والے کچے راستوں سے پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔
اس واحدضلعی بنک کے منیجر سے بعد میں ایک دفعہ جاکر جب ہم اپنے پراجیکٹ کے لئے کسانوں کے اکاونٹ کھلوانے کے لئےملے تھے تو اس نے بڑی دلچسپ کہانی سنائی۔ فرمانے لگے کہ کچھ سال پہلے جب یہاں اس بنک کا باقاعدہ آغاز ہوا تو یہاں کے ایک مقامی دکاندار نے پچاس ہزار روپے جمع کروائے جو کہ اس زمانے میں ایک اچھی خاصی رقم تھی۔ رقم جمع کروانے والے دن جب شام کو ہم بنک بند کرکے جا رہے تھے تو وہ صاحب آگئے کہ میری رقم بنک میں پڑی ہے تو تم لوگ بنک کو اس طرح چھوڑ کر کیسے گھر جاسکتے ہو۔ بنک والوں نے اسے سمجھایا کہ تمہاری رقُم بالکل محفوظ ہے لیکن وہ نہ مانا اور بنک والوں سے رات بنک میں رکنے پر اصرار کیا۔ تاہم بنک والے اس سے بچ بچا کر گھروں کوچلے گئے تو وہ اپنی گن لے کر آگیا اور ساری رات بنک کے باہر حفاظتی پہرہ دیا اور صبح بنک کھلتے ہی اپنی ساری رقم نکلوا کر گھر لے گیا کہ وہاں زیادہ محفوظ رہے گی۔ اب اس طرح کے حالات میں یہاں پراجیکٹ چلوانے کے لئے PC-1 میں خصوصی ترمیم درکار تھی جو کہ کوئٹہ کے راستے مار گلہ ہلز کے دامن کی خوب صورت عمارتوں میں ہونا تھی۔
اری گیشن ریسٹ ہاؤس ژوب سے اگلی صبح نکل کر ہم لوگ ڈی آئی خان جانے والی قومی شاہراہ پر آگئے جس پر سنگھر چیک پوسٹ سے ہم نے موسی خیل کی طرف مڑنا تھا۔ کریم صاحب ہمارے ساتھ تھے اور ہمیں راستے میں واٹر مینیجمنٹ کی اسکیمیں دکھاتے جارہے تھے۔ یہ شاہراہ بھی خوب ہے۔ اسے آپ بلوچستان کا اسلام آباد اور کے پی کے لئے گیٹ وے کہہ سکتے ہیں۔
سی پیک کا ویسٹرن روٹ ہونے کی وجہ سے یہ شاہراہ آج کل کافی بہتر ہوگئی ہے تاہم اس وقت اس کی حالت قابل رحم تھی۔ اس شاہراہ پر کوہ سلیمان کی پہاڑیوں میں پچیس سے تیس سیلابی نالے گزرتے تھے جن پر کوئی پل نہیں تھا اور ٹریفک ان نالوں کی پتھریلی اور کیچڑ والی زمین پر چلتی تھی۔ کئی جگہوں پر باقاعدہ شاہراہ نہ ہونے کی وجہ سے نالہ ہی سڑک کا کام کر رہا ہوتا تھا۔
کوہ سلیمان کی ان بلندوبالا اورہیبت ناک پہاڑوں میں پانی نے صدیوں کی کاریگری سی چھوٹے چھوٹے کٹ لگا کر انسانی آمدورفت کی راہ ہموار کردی ہے۔ اس سڑک کا سب سے تنگ حصہ "دانا سر" ہے جہاں پر آپ کے سر کے اوپر کٹی ہوئی معلق پہاڑیاں کسی قبر میں دفن ہونے کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں اور نیچے گہرائی میں دریا ہلکی ہلکی رفتا سے چل رہا ہوتا ہے۔ اس جگہ سے گزرتے ہوئے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم گاڑی روک کر باہر نہ نکلے ہوں اور کچھ دیر خاموش کھڑے رہ کر کوہ سلیمان کی اس تنگ اور گہرائی میں موجود "درز" میں سے تیزی سے گزرتی ہوا کی آواز نہ سنی ہو جو کہ ہمیں کہہ رہی ہوتی ہے تیزی سے یہاں سے گزر جاؤ ایسا نہ ہو کہ اوپر چوٹی پر تخت سلیمان پر بیٹھا جن کوئی دیوہیکل پتھر لڑھکا دے اور آپ دانا سر سے جڑی متعدد روایتی داستانوں کا ایک حصہ بن جایئں۔
اس وحشت ناک ماحول میں دریا پر موجود چھوٹا سا پل ہمیشہ مجھے مسحور کرتا تھا جس پر کھڑے ہو کر آپ سر اٹھا کر اوپر دیکھیں تو آسمان نظر نہیں آتا اور دونوں طرف کے کئی منزلہ کالے پہاڑ آپ کو دفن کرنے کے لئے بڑھتے نظر آتے ہیں۔
انہی پہاڑوں کے شروع میں "دو ماندہ" کا وہ خوب صورت دریا ملتا ہے جس نے آپ کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ جب بھی یہاں سے گزریں تو یہ ہر وقت بہہ رہا ہوتا ہے۔ اس کے شفاف پانی میں دریا کے پیندے پر بڑے بڑے پتھر صاف نظر آتے ہیں۔ اس دریا پر پل نہیں ہوتا تھا اور گاڑیوں کو اس کے تیز رفتار پانی میں سے بڑے بڑے پتھروں کے اوپر سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا(واضح ہو کہ یہ بین الصوبائی راستہ ہے)۔ اس کو پار کرتے ہوئے کئی دفعہ پانی گاڑی کے بانٹ سے اوپر تک چلا جاتا تھا۔ پتہ نہیں بیمار اور بوڑھے لوگوں کی آمدورفت کیسے ہوتی ہوگی۔ تاہم اب اس پر ایک جدید پل بنا دی گیا ہے۔
ژوب قدرتی وسائل سے مالامال ضلع ہے اور کوہ سلیمان کی پہاڑیوں پر چلغوزے کی کاشت ہوتی ہے۔ ژوب سے جدا ہوکر ضلع بننے والی "شیرانی" تحصیل اس حوالے سے کافی مشہور ہے۔ مولانا شیرانی کا تعلق اس علاقے سے ہے۔ یہ علاقہ انگور اور خرمانی کے باغات کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ سیزن میں یہاں کے ندی نالوں کے کنارے لوگ ان پھلوں کے اسٹال لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں کی خرمانی بہت رس بھری ہوتی ہے۔ ژوب شہرسے مغرب کی طرف نکلتی ہوئی ایک سڑک اسی زمانے میں جنوبی وزیرستان کے شہر "میرعلی" تک بھی بنائی جارہی تھی۔ اس سڑک پر بھی بعد میں سفر کرنے کا موقع ملا تو اطراف کے پہاڑوں پر قدرتی زیتون کے پودے بہت عام ملے۔
"دانا سر "سے آگے کوہ سلیمان کی پہاڑیوں میں جنوبی وزیرستان کا علاقہ "درہ زندہ " آتا ہے جس کے بعد پہاڑیوں کے ختم ہونے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر میدانی علاقہ شروع ہوتے ہی ڈی آئی خان کا تحصیل ٹاون "درا بن" آجاتا ہے۔ تاہم ہم کوہ سلیمان شروع ہونے سے پہلے ہی سنگھر چیک پوسٹ سے کچی سڑک پر دایئں طرف "توئی سر " کی طرف موسی خیل جانے کے لئے مڑ گئے۔ جہاں بائیں طرف حسین کوہ سلیمان کی پہاڑیاں ہم سے ہم کلام تھیں تو وہیں یہ کچی سڑک ہمارے جسم کا ایک ایک جوڑ ہلانے جا رہی تھی۔ موسی خیل کا پہلا سفر یادگار بننے جارہا تھا۔