Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (8)

Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (8)

معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (8)

"موسی خلہ" ایک بہت بڑی پہاڑی ہے جو قدرتی طور پر انسانی چہرے کی شکل میں ڈھلی ہوئی ہے۔ یہ انسانی چہرہ آسمان کی طرف منہ کئے صدیوں سے ژوب آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے۔ وہ ژوب جو کبھی فورٹ سنڈیمن ہوا کرتا تھا۔ بادنزئی کی پتھروں سے بنی اور باغات سے بھری بھول بھلیوں والی چاردیواریوں سے باہر نکلتے ہیں تو دائیں بائیں طرف کی پہاڑیوں میں ہر رنگ کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان پہاڑیوں میں کالے، سرخ، سبز بھورے رنگوں کی تہیں سی لگی نظر آتی ہیں جیسے کسی نے سینڈ وچ بنانے کے لئے مختلف رنگوں کے چکن سپریڈ، پی نٹ سپریڈ اور لیکویڈ چاکلیٹ ڈال رکھے ہوں اور آپ انہی خیالوں میں ہوتے ہیں کہ "موسی خلہ" نظر آنا شروع ہوجاتا ہے جس کے انسانی چہرے کی کشش آپ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ ژوب داخلے کا گیٹ وے ہے۔

موسی خلہ سے آگے بڑھیں تو دائیں طرف ریزیڈنشئیل کالج کی نہ ختمُ ہونے والی چہاردیواری شروع ہو جاتی ہے۔ جب کہ بائیں طرف دور وادی میں کہیں دریائے ژوب خراماں خراماں بہنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ یہ دریا مسلم باغ کان مہتر زئی سے آپ کے ساتھ چلنا شروع کرتا ہے اور بائیں ہاتھ آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا آپ کو ژوب پہنچاتا ہے۔ یہ اس پورے راستے میں آپ کا واحد ہمسفر ہوتا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ تم اکیلے نہیں چل رہے مسافر! میں بھی ساتھ ہوں۔ اگر سڑک کے بایئں طرف دور دریائے ژوب کے کنارے کے ساتھ ساتھ سبزے کی لائن نظر نہ آتی رہے تو شائد یہ سفر بہت تھکا دے۔ اس علاقے میں سڑک کو بہت سے بارشی نالے تیزی سے کراس کرکے دریاسے ملاقات کرنے جارہے ہوتے ہیں۔

دریائے ژوب سے بھی پرے وادی کے دوسرے کنارے پر بہت ہی بلند و بالا پہاڑوں کے ایک کے بعد ایک سلسلے بھی چل رہے ہوتے ہیں جو کہ مغرب میں افغانستان میں نکل جاتے ہیں اور انہی پہاڑوں میں محکمہ آب پاشی بلوچستان نے پچھلے دس سال میں خاموشی سے ایک اور بڑا ڈیم کھڑا کر دیا ہے۔ مٹی اور پتھر سے بنے اس ڈیم کا نام "توئے وار باتوزئی " ڈیم ہے جو کہ دریائے ژوب کے بائیں کنارے کی زمینوں کو سیراب کرے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا کیونکہ یہ اس زمانے میں بنتا رہا جب افغانستان میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے اثرات اس متصل علاقے کی سیکیورٹی صورتحال بھی خراب کر دیتے تھے۔ اس ڈیم کے کیچمنٹ میں ماحول دوست مٹی کے کٹاؤ کو روکنے والے سینکڑوں چیک ڈیم بنائے گئے۔

آپ کے دائیں طرف جو پہاڑی سلسلہ چل رہا ہوتا ہے اس کے دوسری طرف مرغہ کبزئی کا خوب صورت علاقہ ہے جس کی رینج لینڈ ز دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بلوچستان کے ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں مالک کی مہربانی سے مون سون کی بچی کچھی بارشیں پہنچ ہی جاتی ہیں۔ ویسے تو یہ علاقہ سارا سال ہی سرسبز رہتا ہے لیکن اگست سے اکتوبر تک اس کا حسن عروج پر ہوتا ہے۔ ان دنوں اس کی چراگاہوں میں چرتے جانوراور وادیوں میں کھلے پھول دیکھ کر آپ "فئیر ی میڈوز " کو بھول جائیں گے۔ یہ پاکستان کے چند سیاحت کے لئے بھلائے گئے علاقوں میں شامل ہے۔ اگست میں یہاں روزانہ بارش کا اسپیل ہو جاتا ہے اور فضا میں ہر وقت بادل اڑ رہے ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ بائیکرز کی جنت ہے اور لاہور یا اسلام آباد سے پکی سڑک کے راستے یہاں تک دس گھنٹوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔

ژوب ڈسٹرکٹ کی حدود شروع ہوتے ہی وہاں کے ڈسٹرکٹ آفیسر زراعت "کریم " صاحب کھڑے تھے جنہوں نے عبدالوحید کاکڑ صاحب سے ہمیں وصول کیا اور اپنے علاقے کی واٹر منیجنٹ کی اسکیمیں دکھانا شروع کردیں۔ کریم صاحب بڑے دھیمے مزاج کے ایک منجھے ہوئے آفیسر تھے جن کا تعلق لورالائی سے تھا۔ وحید کاکڑ کے برعکس یہ اپنی رفتار سے کام کرنے کے عادی تھے اور کسی کام میں بالکل بھی جلد بازی کے وائل نہ تھے۔ وہ ایک اچھے میزبان تھے۔ انہوں نے ہماری رہائش کا بندوبست ژوب کے اری گیشن ریسٹ ہاؤس میں کیا ہوتا۔

یہ دو کمروں پر مشتمل ایک سادہ سا ریسٹ ہاؤس تھا جہاں بعد میں سردیوں کی کئی راتیں ہم نے کپکپاتے ہوئے گزاریں کیونکہ ژوب میں ابھی تک گیس نہیں پہنچی۔ سب سے مشکل مرحلہ صبح ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھونے کا ہوتا تھا۔ اس ریسٹ ہاؤس کے خادم ہمیں ایک لوٹا پانی صبح لکڑیوں کی آگ پر گرم کر دیتے اس پانی سے منہ دھوتے ہوئے کو سے پانی کی ایک ایک قطرے سے ان کی محبت کا احساس چھلک رہا ہوتا تھا اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے سوانا سے زیادہ مزہ آتا۔ ان باورچی بابا سے 2005 سے قائم ہونے والی نیاز مندی ابھی تک جاری ہے۔

ژوب ایک تاریخی شہر ہے اور یہاں کے لوگ بہت محنتی ہیں۔ ژوب والے کئی لحاظ سے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اکثریت پاکستان کی کنسٹرکشن انڈسٹری میں اپنا نام بنا چکی ہے۔ SKB اور SKB جیسی نامور کنسٹرکشن کمپنیاں ژوب والوں کی ہیں۔ یہاں کے اکثر لوگوں کا پیشہ ہی ٹھیکیداری ہے۔ ژوب میں زیادہ تر مندوخیل، کاکڑ، شیرانی اور کبزئی قبائل آباد ہیں۔

2005 کے ژوب کے مرکزی چوک میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا دفتر ہوتا تھا جہاں پر ژوب سے کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور کے لئے فوکر کے ٹکٹ فروخت ہوتے۔ یہ فوکر جہاز جب ژوب ائیرپورٹ سے فضا میں بلند ہو کر کو ہ سلیمان سے گزرتے تو نیچے تخت سلیمان کی چوٹی پر کھڑے جن اپنی بڑی سی مقناطیس لگا کر چیونٹی ان جہازوں کو اپنی طرف کھینچتے اوران بے چاروں کے انجن فل زور لگا کر اس جادوئی مقناطیس کے اثر سے نکل کر پاس ہی ڈیرہ اسمعیٰل خان کے دو کمروں پر مشتملُ ائیرپورٹ پر لینڈ کر جاتے تو مسافروں کی جان میں جان آتی۔ اس ائیرپورٹ کی واحد دکان سے آپ پرنس والوں کا اصلی قدیمی سوہن حلوہ بھی خرید سکتے تھے۔ وہ تو بھلا ہو انکل سام کا کہ جس نے اپنے ڈرون اڑانے کے لئے ژوب اور ڈیرہ کے ائیرپورٹوں پر تالے لگوائے تو ان چیونٹی جہازوں کی تخت سلیمان کے جنوں سے خلاصی ہوئی۔ انکل سام تو اپنا تماشا بنوا کر چلا گیا لیکن یہ ائیرپورٹ آج تک بند ہیں۔

ژوب شہر کے اندر پہاڑی کی چوٹی پر بنا لاٹ صاحب کے بنگلے کا شہر کی سڑکوں سے نظارہ مجھے ہمیشہ سے مسحور کر دیتا ہے۔ انگریز سرکار نے مقامی لوگوں پر نظر رکھنے اور اپنا رعب داب جمانے کے لئے کیا خوب جگہ چنی تھی۔ آج کل یہ کالے انگریزوں کے استعمال میں ہے۔ اس پہاڑی کے پاؤں میں طواف کرتی ہوئی سڑک پر کریم صاحب ہمیں ڈگری کالج کے ساتھ بنی اری گیشن کالونی میں ریسٹ ہاؤس لے گئے جہاں پر اگلے پندرہ سالوں میں ہم نے شائد بار بار آنا تھا۔

(بلوچستان کے پانیوں کو محفوظ کرنے کا سفر ابھی جاری ہے۔۔۔۔)

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra