Kis Se Munsafi Chahen?
کس سے منصفی چاہیں؟
آج سے کئی برس قبل فیض احمد فیض نے ملکی حالات پر کہا تھا "کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟" آج اگر فیض زندہ ہوتے نہ جانے کیا کچھ کہتے لکھتے۔ ساٹھ سال پہلے پاکستان کے حالات اس طرح ہر گز نہیں تھے جو آج ہیں تو ہر دوسرے شہری کی زبان پر کس سے کہیں، کہاں جائیں، کون سنے گا ہماری فریاد۔
وطن عزیز میں ہر دوسرے پاکستانی کی یہی سوچ ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ پاکستان میں تو کہیں پر بھی غریب کی داد رسی ہوتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا بد قسمتی سے اس وقت ملک میں کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے۔ جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جائے یا جس پر لوگ اعتماد کریں۔ جہاں پر ہر پاکستانی خاص طور پر غریب اس یقین کے ساتھ جا کر اپنی فریاد پیش کرے اور پھر مکمل اس کی داد رسی ہو جائے بظاہر آج کل مشکل کیا بلکہ ناممکن لگتا ہے یہاں پر تو ہر آنے والے دن کے ساتھ غریب کی مایوسی اور محرومیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
ویسے ہر دور اور ہر حکومت کی جانب سے گڈ گورننس کے دعوے۔ ہمیشہ الٹ ہی ثابت ہوتے آ رہے ہیں، مثلاً مہنگائی کم کی جائے گی۔ حکومت لوگوں کی جان ومال کی حفاظت یقینی بنائے گی۔ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے، قانون سب کے لیے برابر ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔ ہر حال میں میرٹ کو ترجیح دی جائے گی۔ اس طرح کے دلکش نعرے ایک عرصے سے سنتے آرہے ہیں بلکہ اب ان نعروں پر لوگوں نے لطیفے بنائے ہیں میرٹ اور گڈ گورنس کااس وقت وطن عزیز میں دور تک نام و نشان نہیں ہے۔
کہتے ہیں پہلے یہاں پر غریب کا جینا مشکل تھا، اب تو مرنا بھی مشکل بن گیا ہے، جہاں تک بلوچستان میں گڈ گورننس اور میرٹ کی بات کی تو بلوچستان حکومت نے تو اس کا ستیاناس کردیا ہے اس وقت کسی بھی ادارے میں کوئی بھی اہلکار خود کو جوابدہ نہیں سمجھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں بیشتر ٹرانسفر پوسٹنگ میرٹ کی بجائے پیسے سفارش تعلقات کی بنیاد پر ہورہے ہیں اسی وجہ سے جس بھی سرکاری ملازم کے ساتھ مذکورہ بالا تینوں سورسز میں سے ایک دو سورس جس کے پاس ہیں وہ خود کو گورنمنٹ ملازم نہیں بلکہ ادارے کا مالک سمجھتے ہیں۔
اس عمل کا ارتکاب کرنے والو میں پولیس کے ایک کانسٹیبل سے لے کر ایس ایس پی تک چپراسی سے لے ڈپٹی کمشنر تک کوئی بھی خود کو گورنمنٹ ملازم تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں فرعون بن گئے ہیں البتہ جن ملازمین کے ساتھ ان تینوں سورس سے کوئی ایک بھی نہیں ہے وہ بیشک چاہیے کتنا ہی ایماندار قابل اور اپنی فیلڈ میں ماہر ہو وہ اس وقت کھڈے لائن پر ہیں یہی وجہ ہے بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
گزشتہ روز میرے ڈسٹرکٹ میں پولیس کانسٹیبل میل، فیمیل کی کچھ آسامیاں مشتہر کی گئی تو ہزاروں بے روزگار نوجوانوں نے کاغذات جمع کروائے تھے جن میں زیادہ تر بی ایس ایس اور ایم ایس ایس سی پاس تھے بتایا جاتا ہے کہ امیدواروں کا میڈیکل فزیکل ٹیسٹ سے لے دوڑ، رٹن ٹیسٹ تک تمام مراحل میں بے قاعدگیاں دیکھنے کو ملی ہیں بقول ان کے ان بے قاعدگیوں کے ان کے پاس شواہد بھی ہیں۔ اس طرح اب ڈسٹرکٹ استا محمد میں ایک کانسٹیبل کی آسامی دس سے پندرہ لاکھ کی ہوگی ہے۔
بلوچستان میں گڈ گورننس کا یہ حال ہے اس وقت کسی کی جان محفوظ ہے اور نا مال محفوظ نہ ہی صحت سماج دشمن عناصر کو کھلی چھٹی ملی ہوئی وہ جس طرح چاہیں لوگوں کی زندگیوں ان کی جان مال صحت سے کھیلیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور جن کی ذمہ داری ہے وہ اس وقت دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ کرنے والے خود لوٹ مار میں مصروف ہیں عوام کی جان ومال صحت اللہ کے حوالے ہے۔
استا محمد بلوچستان کا ایک اہم کاروباری اور کثیر الابادی شہر ہے یہاں پر کچھ عرصہ قبل لوگوں کی بڑی تعداد نے مجھے سے شکایت کی کہ شہر میں کچھ بااثر افراد کیمیکل ملا دودھ فروخت کررہے ہیں یہ مضر صحت دودھ عام ڈیری کے علاوہ باہر سندھ پنجاب سے ٹینکرز کے ذریعے استا محمد سپلائی کی جا رہی اس کے لئے کچھ آواز اٹھائیں تو چند ماہ قبل میں نے ڈائریکٹر بلوچستان فوڈ کنٹرول اتھارٹی سے فون پر بات کی اور اس چیز کی تدارک کے لئے اقدامات کرنے کی گزارش کی تو موصوف نے کہا کہ ٹھیک میں ڈپٹی ڈائریکٹر کو آپ کا نمبر دیتا ہوں وہ آپ سے خود رابطہ کرے گا۔
کچھ ہی دیر کے بعد اس نے مجھے فون کرکے بتایا کہ ڈائریکٹر صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ سے کوڈینشن کروں ہم یہاں سے نکلیں گے تو آپ سے رابطے میں رہیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس چوری چھپے آئے اور دودھ کو کیمیکل سے پاک حفظ صحت کے اصولوں کے عین مطابق قرار دے کر رفو چکر بنے تھے۔ شہریوں کی شکایات پر ایک بار پھر بلوچستان فوڈ کنٹرول اتھارٹی اور مقامی انتظامیہ کے ہمراہ باہر ٹینکر سے آنے والی دودھ کو چیک کرکے نہ صرف کیمیکل سے پاک قرار دیا بلکہ اپنے فرائض منصبی کو پس پشت ڈال کر ٹینکر مافیا کی خوب ترجمانی کی ویڈیو میں وہ کہہ رہا ہے کہ دودھ بلکل صاف ہے اس میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ نہیں پائی گئی ہے بازار میں عام دکانوں کی نسبت یہ سستا ہونے کی وجہ سے لوگ خوامخواہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے بلوچستان فوڈ کنٹرول اتھارٹی کو فعال کرنے کے لئے نور الامین مینگل کی خدمات حاصل کرکے ان کی ٹیم امداد ابڑو صاحب جیسے بہادر فرض شناس آفیسرز کو شامل کرکے انسانی خاص کر غریبوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ دیگر اشیاء خوردونوش کی نسبت خالص دُودھ کی دستیابی کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ دودھ بچوں بڑوں بوڑھوں بیماروں سب کی ضرورت ہے۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں غریب تو دودھ کو دوائی کے طور تو استعمال کرتے ہیں اگر وہ دوائی بھی مضر صحت ہو فائدے کی بجائے نقصان دے ہو تو پھر یہ غریب لوگ کہاں، جائیں کس سے کہیں، کوئی تو ہو ان کی فریاد سننے والا، کوئی تو ان کی داد رسی کرنے والا ہو۔