Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Madar e Watan Tujhe Salam

Madar e Watan Tujhe Salam

مادرِ وطن تجھے سلام

ستر اسی کی دہائی میں جو ڈرامے بنےلاجواب بنے تھے۔۔ کیا ادیب، اداکار اور ہدایتکار تھے۔ ایسے ہی ایک ڈرامے وارث میں چودھری حشمت خان کا گاؤں سکندر پور ڈیم کی وجہ سے خالی کروایا جا رہا تھا اور سرکاری وفد اس کے پاس آیا ہوا تھا۔

سرکاری نمائندہ: "چودھری صاحب! آپ کو بدلے میں زمین ملے گی"۔

چودھری حشمت خان: "زمین تو ماں ہوتی اگر کوئی تم سے کہے کہ تم اپنی ماں مجھے دے دو بدلے میں دوسری ماں ملے گی! تو کیا تم دے دو گے؟"

پچھے کھڑا اس کا ملازم بخشو اپنے ساتھ والے ملازم کوکہتا ہے "میرا باپ تو میری ماں سے بہت تنگ ہے وہ میری ماں کو ضرور بدلے میں دے گا"۔

ایسے بہت سے کم نسل بخشو ہمارے معاشرے میں پیدا ہوچکے ہیں جو اپنے وطن کا کھا کر اس ہی پر زہر افشانی کر رہے ہیں۔ ان میں خاص طور پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان نے پناہ دی، عزت دی، ان کی نسلیں ادھر پیدا ہوکر جوان بھی ہوئیں۔ ان میں سے کافی لوگ کروڑوں اربوں پتی بھی بنے۔ بڑے بڑے پلازے بھی کھڑے کیے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی شہریت بھی حاصل کرلی۔

لیکن ان میں سے بہت سےکم نسل حرام خور واپس اپنے وطن جاتے ہی اور کچھ ادھر ہی قیام پذیر اپنے خون کے مطابق ایسی ایسی واحیات پوسٹیں پاکستان کے خلاف کرنے لگے ہیں کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا لے۔ شاید ان میں بہت سے اچھے بھی ہوں (جس کی امید کم ہے) اور پاکستان کی عزت کرتے ہیں تو دونوں ہاتھوں سے انہیں سلام لیکن اکثریت اپنے دل میں تعصب اور نفرت لے کر پھر رہی ہے کہ جیسے پاکستان نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔

یہ لوگ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم کی توہین بھی کررہے ہیں۔

پرچم کی پاسداری کی نبی کریم ﷺ نے بارہا تاکیدکی ہے اور میں ایک واقعہ لکھنا چاہوں گا۔۔

ہجرت کے بعد غزوۂ بدر ہوا جس میں مشرکینِ مکہ کو شکست فاش ہوئی۔ اسلامی ریاست مضبوط ہوگئی۔ بدر میں جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ ہی کے ہاتھ میں تھا۔

ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ مکہ والے ایک اور لشکرِ جرار لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے۔ احد کے میدان میں آمنا سامنا ہوا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس موقع پر مہاجرین اور انصار کو جھنڈے عطافرمائے۔ ان خوش قسمت لوگوں میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ بھی شامل تھے۔ جھنڈے کا ملنا ایک بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی اور اس کی حفاظت کرنا اس سے بھی بڑی ذمہ داری تھی۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ اس ذمہ داری کو خوب سمجھتے تھے چنانچہ احد کے دن آپؓ نے اس ذمہ داری کا حق ادا کر دیا۔

مورخین نے اس دن سیدنا مصعبؓ کا کردار کچھ یوں بیان کیا ہے: احد کی جنگ شروع ہونے لگی تو اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا: آج مشرکین کا جھنڈا کس کے پاس ہے؟ انہوں نے بتایا کہ بنو عبد الدار اس جھنڈے کو تھام کر رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ہم اپنا جھنڈا بھی بنو عبد الدار ہی کے ایک نوجوان کے سپرد کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مصعب بن عمیرؓ کو میرے پاس بلاؤ۔

جب وہ حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے لشکرِ اسلام کا جھنڈا ان کے سپرد کر دیا۔ جنگ کے دوران یہ جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ نے سنبھالا اور پھر اس کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے جھنڈا اٹھانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کے دفاع کا فریضہ بھی انجام دیا۔ جب ابی بن خلف نے آپ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو سیدنا مصعبؓ نے ابی کے چہرے پر زور دار ضرب لگائی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے خود اور زرہ کے درمیان تھوڑی سی خالی جگہ دیکھی تو اسی جگہ کا نشانہ لے کر اس کو ضرب لگائی۔ وہ منہ کے بل گرا اور بیل کی طرح ڈکارنے لگا۔ مسلمان جب تتر بتر ہوگئے تب بھی حضرت مصعبؓ ثابت قدم رہے۔ ابن قمئہ لیثی آگے بڑھا۔ چونکہ مصعب کی شکل و شباہت اللہ کے رسول ﷺ سے ملتی جلتی تھی اس لئے اس نے یہ سمجھا کہ یہ محمد ﷺ ہیں اور موقع غنیمت جانتے ہوئے حضرت مصعبؓ کے داہنے ہاتھ پر زوردار وار کیا۔ ہاتھ کٹ گیا تو آپؓ نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔ پھر اس نے بائیں ہاتھ پر تلوار کا وار کیا۔ بایاں بازو بھی کٹ گیا، اس وقت آپؓ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے: [وَمَامُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ، أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أَعْقَابِکُمْ]. " محمد ﷺ صرف اللہ کے رسول ہی تو ہیں، آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر (دین سے) پھر جاؤ گے"۔ (آل عمران 144)۔ اب سیدنا مصعبؓ نے کٹے ہوئے بازوؤں کے بقایا حصوں کا سہارا دے کر جھنڈا اپنے سینے سے لگا لیا۔

اب کی بار ابن قمئہ لیثی نے نیزے سے حملہ کیا۔ آپؓ کی زبان پر مسلسل قرآن پاک کی آیت کریمہ کی تلاوت جاری تھی۔ نیزے کی اَنی آپؓکے سینے سے پار ہوگئی۔ آپؓ زمین پر گر گئے اور اس کے ساتھ ہی شہید ہو گئے۔ شہادت کے وقت عمرِ مبارک 40 سال تھی۔ جھنڈا زمین پر گرنےسے پہلے سیدنا علیؓ نے آگے بڑھ کر جھنڈا سنبھال لیا۔

معرکہ ختم ہوا۔ اللہ کے رسول دیگر صحابہ کرام کیساتھ شہداء کو الوداع کر رہے تھے۔ ان صحابہ میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔ سیدنا خباب بن ارت نے آنسوئوں کی برسات میں انہیں یوں نذرانۂ عقیدت پیش کیا: "ہم لوگوں نے محض رضائے الٰہی کی خاطر اللہ کے رسول کے ساتھ ہجرت کی۔ اس کا اجر و ثواب اور بدلہ یقینا اللہ تعالیٰ سے ملے گا۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ہجرت کا بدلہ دنیا میں بھی پایا۔ کچھ ایسے تھے جن کو کوئی مادی فائدہ دنیا میں حاصل نہ ہوا جن میں مصعب بن عمیرؓ بھی شامل تھے۔ جب ان کو دفن کرنے لگے تو کفن میسر نہ تھا، ایک چھوٹی سی چادر میسر آئی جس کو سر پر ڈالتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور پاؤں پر سرکاتے تو سر ننگا رہ جاتا"۔

اُن کی شہادت کی رؤف و رحیم نبی ﷺ کو خبر دی گئی۔ آپ ﷺ تشریف لائے، اپنے پیارے ساتھی کی نعش کے قریب کھڑے ہوئے۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آپ فرما رہے تھے: "مؤمنوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا۔ مصعب! میں نے تمہیں مکہ میں دیکھا تھا۔ تم سے زیادہ نفیس لباس اور تم سے زیادہ خوبصورت بال کسی کے نہیں تھے۔ اب ایک یہ وقت ہے کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں، تم بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ایک معمولی چادر میں لپٹے ہوئے ہو"۔ پھر آپ ﷺ نے تمام شہداء کی طرف ایک نظر ڈالی اور فرمایا: "اللہ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم قیامت والے دن شہداء میں اٹھائے جائو گے"۔ پھر آپ ﷺنے صحابہ کو حکم دیا: مصعب کے سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور قدموں کو اذخر گھاس سے ڈھانپ دو اور پھر قبر میں دفن کر دو"۔

مجھے مزید دکھ اور افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کچھ بے غیرت پاکستانی ادھر سے ان کے ساتھ مل کر مادرِ وطن پر زہر افشانی کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یقین کیجیے اگر یہ پاکستانی خواہ کسی بھی نسل کےہوں ان کےہتھے چڑھ گئے تو یہ صرف پاکستانی دیکھ کر م و ت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ ایسے پاکستانیوں کے بارے میں میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے

ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

میں نے انتہائی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے کچھ الفاظ استعمال کیے ہیں اور اس سے زیادہ میں ان نمک حرام غداروں (اندرون و بیرون) منہ پر کروں گا جو میرے وطن پر بھونکتے ہیں۔ مختلف الفاظ پر انتباہ آجاتا ہے اس لیے مجبوری ہے وگرنہ ان بے غیرتوں کے لیے یہ الفاظ بھی کم ہیں۔ باقی کیسے بھی حالات ہوں مجھے صرف اور صرف اپنے وطن سے پیار ہے جس نے مجھے پہچان دی اور میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا ہوں۔ وطن میں رہنے والے لوگ خراب ہوسکتے ہیں لیکن میرا وطن نہیں۔ میں ہر اس شخص کو سلام کرتا ہوں جو پاکستان سے پیار کرتا ہے اور اس کی سالمیت کے لیے کوشاں یا دعاگو ہے۔

میری پوسٹ پر صرف نمک حراموں کو غصہ آئے گا اور ان کے پیچ و تاب کو میں اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں۔

Check Also

Karoonjhar Se Karachi Tak

By Nasir Abbas Nayyar