Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Mukhtalif Mizajon Ke Sath Nabi Kareem Ka Inferadi Tarz e Amal

Mukhtalif Mizajon Ke Sath Nabi Kareem Ka Inferadi Tarz e Amal

مختلف مزاجوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کا انفرادی طرزِ عمل

فطری طور پر لوگ بعض اشیاء کو پسند یا نا پسند کرنے میں یکساں ہوتے ہیں اور یہ امر بھی انسانی طبیعت کا حصہ ہے کہ بعض لوگ اگر کسی شے کو پسند کرتے اور اس کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں تو بعض دیگر افراد اسی شے کو نا پسند کرتے اور اس کے وجود کو گراں سمجھتے ہیں۔

نبی ﷺ کے طرز عمل میں یہ صفت بڑی واضح اور نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ ملنے والے ہر شخص سے اس کی افتاد طبع کے مطابق سلوک کرتے۔ گھر میں اپنی بیویوں اور اولاد کے ساتھ بھی آپ کا رویہ ان کی طبائع کے موافق ہوتا۔ ام المومنین عائشہ کشادہ دل اور کھلی طبیعت کی مالک تھیں۔ رسول اللہ ﷺ ان سے ہنسی مذاق اور لطافت کا اظہار کیا کرتے۔

اس کے برعکس ام المومنین خدیجہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل مختلف اور ان کے مزاج کے مطابق تھا۔ وہ عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ بڑی عمر کی عورت کے مزاج پر سنجیدگی اور متانت کا اثر غالب ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا اپنے اصحاب کرام کے ساتھ تعامل بھی اسی طریقے کے مطابق تھا۔ آپ ابو ہریرہ کی قمیص خالد بن ولید کو پہنانے کی کوشش نہ کرتے۔ ابوبکر صدیق سے آپ کا جو رویہ تھا وہ طلحہ سے نہیں تھا۔ عمر، علی کے ایک خاص مزاج کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کا ان سے تعامل کا طریقہ دیگر اصحاب سے جدا تھا۔ آپ انھیں جو کام سپرد کرتے وہ ان کے سوا کسی اور کے کرنے کا نہ ہوتا۔

مشہور واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خیبر پر حملہ آور ہوئے۔ وہاں اسلامی لشکر اور یہود کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، پھر آپ نے ان سے مصالحت کی اور شہر میں داخل ہو گئے۔ معاہدے کی شرائط میں یہ امر بھی شامل تھا کہ یہود اپنے مال و متاع اور سونا چاندی میں سے کوئی شے نہیں چھپائیں گے۔ اگر انھوں نے کوئی چیز چھپانے کی کوشش کی تو معاہدہ منسوخ سمجھا جائے گا اور اس کی کسی شق پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔

حیی بن اخطب جس کا شمار یہود کے سرداروں میں ہوتا تھا، مدینہ سے جلا وطنی پر سانڈ کی ایک کمائی ہوئی چمڑی اپنے ساتھ لیتا آیا تھا جس میں بہت سا سونا اور زیور سلا ہوا تھا۔ وہ یہ سونا ترکے میں چھوڑ کر مرا تھا۔ یہود نے اسے رسول اللہ ﷺ سے چھپا لیا۔ آپ نے حیی بن اخطب کے چچا سے دریافت کیا: "حی کی وہ چمڑی کیا ہوئی جو وہ نصیر سے لایا تھا؟" اس نے جواب دیا: "وہ سونا تو جنگوں اور دیگر مدوں میں صرف ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا جواب سنا تو سوچ میں پڑ گئے کہ حیی کو مرے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مال بھی بڑی مقدار میں تھا اور ماضی قریب میں ان لوگوں کو جنگ سے واسطہ بھی نہیں پڑا کہ انھیں اتنا مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی۔

آپ نے اعتراض کیا: "اتنا زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور مال بھی خاصی مقدار میں تھا۔ یہودی نے پھر وہی ٹکا سا جواب دیا: "مال اور زیور سب ختم ہوگیا۔ ہمارے پاس کچھ نہیں"۔ نبی ﷺ سمجھ گئے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈالی جو خاصی تعداد میں تھے۔ وہ سب آپ کے اشارے کے منتظر تھے۔

آپ نے زبیر بن عوام کی طرف دیکھا اور کہا: "زبیر! اس آدمی کی کچھ تواضع کی جائے"۔ زبیر شعلہ بار ہو کر یہودی کی جانب بڑھے۔ یہودی انھیں دیکھ کر کانپ اٹھا، اس نے بھانپ لیا کہ صورت حال پیچیدہ ہے۔ وہ جھٹ بولا: میں نے حیی کو دیکھا تھا وہ وہاں کھنڈر میں گھومتا پھرتا تھا۔ اس نے ایک پرانے گھر کے کھنڈر کی طرف اشارہ کیا۔ صحابہ کرام وہاں پہنچے۔ ادھر ادھر تلاش کیا تو انھیں کھنڈر میں چھپایا ہوا مال مل گیا۔ اب دیکھیے یہ کام رسول اللہ ﷺ نے زبیر بن عوام ہی کے سپرد کیا۔ سچ ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مبارک مجلس میں بیٹھے صحابہ کرام سے باتیں کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے پہلے تو دائیں بائیں دیکھا، پھر مسجد کے ایک گوشے کی طرف بڑھا۔ سب لوگ اسے حیرت سے تکنے لگے کہ یہ کیا کرنے والا ہے۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا تہبند اٹھایا اور بیٹھ کر اطمینان سے پیشاب کرنے لگا۔ چند افراد جلدی سے اٹھے تاکہ اسے اس عمل سے باز رکھیں۔

رسول اللہ ﷺ نے انھیں روکا اور تحمل سے فرمایا: "اسے چھوڑ دیں، اسے مت روکیں"۔

اعرابی پیشاب کرکے اٹھا تو نبی ﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا۔ وہ آیا تو آپ نے اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا: "مساجد اس کام کے لیے نہیں بنائی گئیں۔ انھیں اللہ کا ذکر کرنے، نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے"۔

نہایت مختصر نصیحت کرنے کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔

بات آدمی کی سمجھ میں آگئی اور وہ چلا گیا۔

نماز کا وقت ہوا تو وہ پھر آیا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ بلند کی، قراءت کے بعد رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو سب مقتدیوں نے ربنا ولک الحمد کہا۔ اعرابی نے بھی یہ الفاظ کہے لیکن مزید چند الفاظ کا اضافہ کر دیا:

"اے اللہ! مجھ پر اور محمد پر رحم کر۔ ہمارے ساتھ کسی پر رحم نہ کر"۔

نبی ﷺ نے اس کے یہ الفاظ سن لیے۔ نماز تمام ہوئی تو آپ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور ان الفاظ کے قائل کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کون تھا۔ لوگوں نے اعرابی کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے آواز دی۔ وہ قریب آیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی آدمی ہے جس نے کچھ دیر پہلے مسجد میں پیشاب کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت اس کے دل میں اس حد تک گھر کر چکی تھی کہ وہ چاہتا تھا، اس کے اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی پر رحمت نازل نہ ہو۔

آپ نے اسے تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: "تم نے ایک وسیع شے کو تنگ کر دیا ہے"۔

اس آدمی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے حسن سلوک کی وجہ سے اس کا دل آپ کا والا و شیدا ہوگیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ آپ نے اعرابی کی کلید شخصی کا سراغ پا لیا تھا۔ آپ جانتے تھے کہ اس سے کیا برتاؤ کرنا ہے۔ وہ ایک اعرابی تھا جو بادیہ سے آیا تھا۔ علم کے لحاظ سے وہ ابو بکر و عمر یا معاذ و عمار کا ہمسر نہیں تھا، چنانچہ اس کا مواخذہ بھی اس کی شخصیت اور اس کے مبلغ علم کے مطابق کیا جانا چاہیے تھا۔

سب لوگوں کو ایک جیسا مت سمجھیں۔ لوگوں کی طبیعتیں کتنی رنگا رنگ اور مختلف ہیں، ہم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے "۔

ہمیں چاہیے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہر فرد کے مزاج کے موافق اس سے برتاؤ کریں اور ایسا طریقہ تعامل اپنائیں جسے وہ آسانی سے ہضم کر سکے تاکہ وہ ہماری رفاقت پاکر راحت محسوس کرے اور کسی قسم کی اکتاہٹ یا بددلی کا شکار نہ ہو۔

اس مضمون کی تیاری کے لیے عبد الرحمن العریفی کی کتاب "زندگی سے لطف اٹھائیے" سے مدد لی گئی۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Bohran Ya Istehkam

By Hameed Ullah Bhatti