Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (5)

Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (5)

معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (5)

لورالائی سے ڈی جی خان جانے والی قومی شاہراہ پر کچھ دور آگے جاکر ہم دایئں طرف کچے میں اتر گئے جہاں پر دور دور تک وسیع میدان تھا۔ اس سارے علاقے میں گھومتے اور مقامی افراد سے ملنے اور ان کی واٹر مینیجمنٹ کی سکیموں کی فزیبیلٹی کا جائزہ لینے میں سارا دن گزر گیا۔ عصر سے پہلے جب واپسی کا ارادہ بنا رہے تھے تو دو جڑواں گاوں سے گزر ہوا جن میں سے ایک کا نام کلی "لاہور" اور دوسرے کا نام کلی "دلی " تھا۔ اس ویرانے میں لاہور سے نسبت رکھنے والے اس گاوں کو دیکھ کر ایک انسیت کا احساس ہوا۔

یہاں زیر زمین پانی قریب تھا اور ان لوگوں نے کافی رقبے پر زراعت کی ہوئی تھی۔ میرا دل یہاں رک کر کچھ لمحے یہاں کی فضا میں گزارنے کو کر رہا تھا لیکن میرے ساتھ بیٹھے PMU کے ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ صاحب کہنے لگے کہ شام ہورہی ہے لورالائی جاتے ہیں ابھی پراجیکٹ کے چارسال پڑے ہیں ۔ اگلے کسی وزٹ میں یہاں آئیں گے۔ ہم نے وہاں سے قومی شاہراہ جانے والے رستے پر گاڑیاں موڑ لیں ۔

کچے رستے پر ابھی چند کلومیٹر آگے گئے ہوں گے کہ آگے سے ایک آدمی بھاگتا ہوا ہماری گاڑیوں کی طرف آرہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے زور زور سے رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ گاڑیاں رکیں تو پتہ چلا کہ وہ شخص کلی لاہور کا بڑا ہے اور کہیں اور گیا ہوا تھا جہاں سے اسے ہمارے قافلے کی آمد کا پتہ چلا اور وہ ہماری مہمان نوازی کے لئے واپس آرہا تھا۔ ہم نے اس کی خوب منت سماجت کی کہ ہم اگلی دفعہ اس کی میزبانی سے لطف اندوز ہو جایئں گے مگر وہ نہیں مان رہا تھا۔

جب اسے بھر پور یقین ہو گیا کہ ہم آج اس کے مہمان بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تو سب کے سامنے اس نے مجھے کہا "اگر آج آپ لوگ میرے ہجرت سے کچھ کھائے پئے بغیر چلے گئے تو میری بیوی کو طلاق!" ۔ میں اس کے اس اچانک فقرے سے دم بخود رہ گیا اور اپنے قافلے کو کلی "لاہور" واپسی کا اشارہ کیا۔ میں لورالائی جلدی پہنچنے کے چکر میں اس معزز شخص کا گھر برباد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ خواجہ صاحب ابھی بھی مجھے لاہور میں چائے پینے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے ان حاجی صاحب سے البتہ یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ ہمیں آج جلدی فارغ کردیں گے اور ہم ان کے ہجرے پر صرف دودھ والی چائے ہی پہیں گے۔

کلی "لاہور" کے اس ہجرے کی فرشی نشست پر غروب ہوتے ہوئے سورج کا منظر دیکھتے ہوئے ہم نے دنیا کی وہ انوکھی دودھ پتی پی کہ جس کے نہ پینے سے ایک شادی شدہ گھر برباد ہو سکتا تھا۔ مغرب کی نماز وہیں ادا کی اور پھر حاجی صاحب سے اجازت لی۔ اسی دوران خواجہ صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ "وٹو صاحب یہ وہ اصلی والا لاہور ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ "جمیا ای نئیں " (وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ آپ کا لاہور تو ویسے ہی بدنام ہے "

وہ رات لورالائی میں گزار کر اگلے دن دوپہر کے بعد کوئٹہ کے لئے روانہ ہوئے اس دفعہ ہم سنجاوی سے ہوتے ہوئے زیارت کے راستے کوئٹہ واپس ہوئے۔ زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی دیکھنے کا شوق پورا کیا اور شام تک کوئٹہ پہنچ گئے جہاں PMU والے ہماری تلاش میں تھے۔ PMU کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اس وقت چوہدری ذوالفقار صاحب تھے جو کہ محکمہ زراعت بلوچستان سے ڈائریکٹر جنرل ریٹائر ہوئے تھے اور بلوچستان کے "بابائے زراعت" مشہور تھے۔ بلوچستان ہمیشہ سے زراعت کی بجائے لائیو سٹاک پر انحصار کرنے والا صوبہ رہا ہے لیکن چوہدری صاحب اپنی انتھک محنت سے جہاں بھی موقع ملتا گیا زراعت کو ترقی دیتے گئے تھے اور اس سلسلہ میں حکومت پاکستان کے ایوارڈ یافتہ تھے ۔ پورے بلوچستان میں ان کے دور کے یادگار زرعی منصوبوں کی بازگشت سنائی دیتی تھی اور اپنے محکمے کے لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

میں اپنے دورہ نوشکی، چاغی اور لورالائی کے زمینی حقائق ان کے سامنے رکھنا چاہتا تھا تاکہ NPIW کے اس منصوبے کو زیادہ سے زیادہ عام لوگوں کے لئے مفید بنایا جا سکے ۔ ان میں سب سے مشکل کام اس پراجیکٹ کی باگ ڈور pmu سے لے کر محکمہ زراعت بلوچستان کے حوالے کرنے کی تجویز دینا تھا جس پر اس وقت سب بڑے لڑ رہے تھے لیکن چوہدری صاحب کی زراعت کے حوالے سے گزشتہ خدمات کو دیکھتے ہوئے اس وقت میری واحد امید بھی وہی تھے ۔ ان کی رضامندی کے بغیر یہ پراجیکٹ اپنی اصلی رفتار پر واپس لانا تقریباً ناممکن تھا اور یہی ہمارا ٹارگٹ بھی تھا۔

میں نے دو تین دن لگا کر اپنی رپورٹ تیار کی اور وزیراعلی ہاؤس میں قائم pmu کے پراجیکٹ ڈائریکٹر آفس میں جمع کرادی۔ یہ رپورٹ لے کر میں چوہدری ذوالفقار (مرحوم) سے خود بھی ملا اور انہیں بتایا کہ یہ پراجیکٹ صرف اسی وقت اپنے راستے پر واپس آ سکتا ہے اگر اس کی باگ ڈور محکمہ زراعت بلوچستان کے حوالے کردی جائے اور pmu کا کردار صرف پالیسی سازی، راہنمائی اور مانیٹرنگ تک محدود ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پراجیکٹ کے PC1 میں چند اہم بنیادی تبدیلیاں درکار ہوں گی تاکہ یہ بلوچستان کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ ہوسکے جن میں پی وی سی پائپ لائنیں، آرسی سی پائپ لائنیں، کاریزوں اور چشموں کے پانی جو بھی استعمال کرنا اور بنک اکاونٹ کی شرط ختم کرنا ہوگی۔

چوہدری صاحب بہت شفیق انسان تھے انہوں نے میری مشکل باتوں کو مکمل خاموشی سے سنا اور پھر فرمانے لگے کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ لاہور سے آکر آپ لوگوں نے اتنی جلدی فیلڈ آپریشن شروع کرائے ہیں اور زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ میرا ہر قسم کا تعاون آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا لیکن جو تبدیلیاں آپ چاہ رہے ہیں وہ میرے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ۔ میں نے پھر بھی انہیں یہ سفارشات وفاقی حکومت کو اپنے تائیدی نوٹ کے ساتھ بجھوانے کی درخواست کی اور ساتھ یہ بھی درخواست کی کہ اس بارے میں pmu کے کسی بھی دوسرے اہلکار کو ابھی نہ بتائیں ورنہ وہ لوگ اپنے اختیارات میں کمی کسی طور برداشت نہیں کریں گے اور یہ تجاویز وفاقی حکومت تک پہنچنے سے پہلے ہی داخل دفتر ہو جایئں گی۔

ایک دودن کے بعد میں نے محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر جنرل سے ملنے کا پروگرام بنایا تاکہ انہیں بھی اپنے فیلڈ وزٹ اور تجاویز پر اعتماد میں لے سکوں لیکن وہ بدستور ہم سے ناراض تھے اور ہمیں pmu کی پارٹی سمجھتے تھے کیونکہ ہمارا کنٹریکٹ pmu کے ساتھ تھا۔ لہذا انہوں نے ہمیں ملاقات کا وقت نہ دیا۔ ہم ان کے نچلے عملے سے مل کر واپس آگئے۔ کچھ دن بعد وزیراعلی ہاؤس سے پیغام آیا کہ وفاقی وزیر زراعت جہانگیر ترین جو اس منصوبے کا دماغ تھے وہ کوئٹہ تشریف لا رہے ہیں اور ان کے ساتھ وفاقی وزیر خوراک سکندر حیات بوسان بھی ہوں گے لہذا ہم اس دن پوری تیاری سے pmu پہنچ جایئں۔ تاہم محکمہ زراعت کے وزیر صاحب اور ان کے محکمے کے اعلی حکام نے احتجاج کرتے ہوئے اس میٹنگ میں شرکت سے معذرت کر لی اور یوں یہ وزٹ نہ ہو سکا۔

جاوید اعوان صاحب کی بطور سیکریٹری زراعت بلوچستان تعیناتی ان حالات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ منصوبے کے اعلی دماغوں نے ان کی کسی بھی مشکل کام کو کر گزرنے کی اہلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں بلوچستان روانہ کیا ۔ انہوں نے چارج لیتے ہی ایک پراگریس ریویو میٹنگ بلائی جس میں ان کے اپنے محکمے کے ساتھ ساتھ pmu اور کنسلٹنٹس کو بھی دعوت دی گئی۔ تاہم pmu نے اس میٹنگ میں یہ کہہ کر شرکت سے معذرت کرلی کہ چونکہ وہ وزیراعلی بلوچستان کے ماتحت کام کر رہے ہیں اور وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں لہذا کوئی محکمہ انہیں پراگریس لینے کے لئے طلب نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ pmu میں سیکرٹری صاحب کو خوش آمدید کہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی pmu نے ہمیں بھی پیغام بجھوایا کہ آپ لوگوں کا معاہدہ چونکہ pmu کے ساتھ ہوا ہے لہذا آپ محکمہ زراعت کے پابند نہیں اور آپ لوگ اس میٹنگ میں نہیں جایئں گے۔ یہ ہدایت نامہ ہمارے لئے ایک بہت بڑا امتحان تھا اور ہم اس میں کیسے سرخرو ہوئے یہ قصہ اگلی قسط میں انشا اللہ بیان کروں گا۔

(جاری ہے)

Check Also

Islamia University Bahawalpur Ko Bachayen

By Muhammad Irfan Nadeem