Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (12)
معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (12)
ہم لورالائی سے اگلی صبح براستہ سنجاوی۔ زیارت کوئٹہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ N70 پر نکلتے ہی بائیں ہاتھ ایک پتلی سڑک نکلتی ہے جو کہ پہاڑی سلسلے سے ہوتی ہوئی جنوب میں سنجاوی جاتی ہے۔ جہاں سے ایک راستہ ہرنائی کی طرف نکل جاتا ہے جو پہاڑ کے اوپر پیچ کھاتا ہوا کافی آگے تک چلتاجاتاہے اور پھر نیچے ہرنائی کی وادی میں اتر جاتاہے۔
"ہرنائی" بلوچستان کے چند بہترین سبزہ زادوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پانی میسر ہے اور ہر قسم کی سبزیاں اگتی ہیں۔ زراعت خوب کی جاتی ہے اور محکمہ اری گیشن نے ہرنائی میں بہت سے چھوٹے ڈیم بنا دئے ہیں۔ تاہم "ہرنائی وولن ملز " ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ ہرنائی اس وقت ضلع سبّی کی تحصیل ہونے کے باوجود سبّی کے ساتھ کسی سڑک سے رابطہ میں نہیں تھا۔ سبّی اور ہرنائی کے درمیان بہت ہی مشکل پہاڑی سلسلے آتے ہیں جن میں انگریزوں نے اپنے زمانے میں کئی قسم کے ڈیزائن والےلوہے کے پل بنائے تھے اور ہرنائی کو ریل کے ذریعے سبّی سے ملایا تھا جس پر ایک زمانے تک سبزی اور دوسری زرعی اجناس سبّی کے میدانوں تک لانے کے لئے پیسنجر ٹرین چلتی رہی۔
ہمارے پراجیکٹ کے وقت یہ لوہے کے پل یہاں موجود تھے اور پسنجر ٹرین بھی چل رہی تھی جس پر ہم نے ایک دفعہ سفر کا پروگرام بنایا مگر بوجوہ نہ جا سکے۔ تاہم سردار اکبر بگٹی کے قتل کے کچھ عرصہ بعد شر پسندوں نے ایک راکٹ حملے میں ان میں سے ایک تاریخی لوہے کے پل کو دھماکہ خیز مواد سےاڑا دیا تھا جس کے بعد اس ریلوے سیکشن پر آج تک ٹرین سروس بند پڑی ہے اور عام لوگ خوار ہورہے ہیں۔ ہرنائی سے ایک راستہ "شاہرگ" قصبے کے راستے واپس زیارت روڈ پر آجاتا ہے۔ ہرنائی میں کام کرنے کا بہت مزہ آیا اور وہاں ہم نے بڑی شاندار اسکیمیں بنائیں جن کا مقامی لوگوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
سنجاوی کا قصبہ دیکھنے میں ایک ترقی کرتے ہوئے علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔ سڑک کنارے بڑے خوب صورت اور جدید طرز کے مکانات بھی نظر آجاتے۔ سنجاوی سے نکلتے ہی زیارت کی طرف پہاڑی ڈھلوانوں والا مشکل سفر شروع ہوجاتا تھا۔ اس ویران علاقے میں بعد میں ایک فیلڈ وزٹ کے دوران سڑک کنارے ایک جھونپڑی والے نے ہمارے دل جیت لئے تھے۔
رمضان کا مہینہ چل رہا تھا اور ہم زیارت کی اسکیمیں دیکھ کر لورالائی پہنچ کر افطاری کا پروگرام لے کر چلے تھے لیکن دوران کام دیر ہوگئی اور ہمیں اس پہاڑی ڈھلوان والے راستے میں مغرب ہوگئی۔ سڑک سے تھوڑی دور بنی جھونپڑی نما گھر والوں نے جب دور سے مسافروں کی گاڑیاں آتے دیکھی تو سڑک پر آ کھڑے ہوئے اور ہماری گاڑیاں روک کر اپنے ساتھ افطاری پر اصرار کیا۔ جب کچھ بحث و مباحثے کے بعد ہماری ٹیم نے افطاری کرنے کی حامی بھری تو انہوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اور ایک مرد نے اپنی چادر مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے زمین پر بچھا دی۔
بچے اور نوجوان دوڑ کر گھر کے دستر اخوان سے وہ سب کچھ اٹھا کر مہمانوں کی افطاری کے لئے لے آئے جو انہوں نے اپنے لئے تیار کر رکھا تھا اور یہ سب کچھ خوراک کی اتنی مقدار سے بھی کم تھا جو ایک شہری بابو افطاری کے نام پر ڈکار جاتا ہے۔ ہم ایک ایک کھجور حلق میں اتارتے تو ہمارے میزبان کے چہرے پر اتنی خوشی نظر آتی جوکہ بیان سے باہر ہے۔ اس غریب نے اپنے شام کے کھانے کا سارا سامان لاکر ہماری ٹیم کے سات آٹھ بندوں کو کھلا دیا تھا حالانکہ لورالائی میں شام کا کھانا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ بعد میں جب بھی یہاں سے گزرے اس نیک بخت کو رک کر سلام ضرور کیا۔
زیارت سے پہلے "چوتیر" کا علاقہ آتا ہے جو کہ باغات اور اپنے لینڈ اسکیپ کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں سے دونوں طرف اونچی پہاڑی چوٹیاں شروع ہوتی ہیں اور یہ ایک علاقہ ایک تنگ وادی کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس وادی میں صرف اطراف باغات کی ایک سبز ہٹی زیارت تک چلتی ہے اور بیک گرانڈ میں انتہائی بلند عمومی پہاڑ جن کے اوپر جونیپر کے درخت نظر آتے ہیں۔
جونیپر کے درخت زیارت کی پوری وادی میں پھیلے ہیں۔ یہ بہت نایاب درخت ہیں جن کی عمر آرام سے ہزار سال سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ زیارت سے ایک راستہ جونیپر کے قدرتی جنگلات میں "زیرو" پوائنٹ تک جاتا ہے جہاں کچھ دیر رک کر ایک مختلف قسم کی دنیا کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ متبادل ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مقامی لوگ جونیپر درخت کاٹ کر آگ جلانے پر مجبور تھے۔ بے نظیر دور میں ان درختوں کو محفوظ رکھنے کے لئے گیس کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔
زیارت کے جونیپر جنگلات والے علاقے میں بہت سی تنگ وادیاں اور آبشاریں ہیں جنہیں " تنگی " بولا جاتا ہے۔ یہ علاقے ٹریکنگ اور کیمپنگ کرنے والوں کی جنت ہیں۔ مئی سے ستمبر تک کے عرصے کے دوران کسی چاندنی رات میں کسی تنگی میں آبشار کے کنارے کیمپنگ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ زیارت ایک پرامن علاقہ ہے اور گرمیوں میں بے شمار ٹورسٹ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اچھی سڑکیں بننے کی وجہ سے اب لاہور یا اسلام آباد سے زیارت 12 گھنٹے میں کار سے پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پی ٹی ڈی سی والوں کا موٹل بھی ہے۔
قائداعظم ریزیڈنسی کے اطراف کئی لوگوں کے ذاتی ریسٹ ہاوسز بھی ہیں۔ زیارت سے کوئٹہ کی طرف نکلتے ہی باب زیارت کے پاس "الہجرہ" ٹرسٹ کے ریزیڈنشئل کالج کی خوب صورت عمارت ہے۔ زیارت سے کوئٹہ دو اڑھائی گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ زیارت کے اطراف باغات کے اندر گرمیوں میں مقامی لوگوں کی اجازت سے پکنک کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ زیارت سے کوئٹہ کی طرف روانہ ہوں تو "کواس" کا علاقہ آتا ہے جو پھل دار باغات کی جنت ہے۔
تاہم سردیوں میں زیارت ایک ڈیڈ سٹی کا منظر پیش کرتا ہے اور یہاں سے گزرتے ہوئے ویرانی دیکھ کر شدید ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ تاہم اگر برف باری ہوجائے تو پھر ہر طرف سے مستانے پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ سردیوں میں زیارت سے گزرتے ہوئے مین بازار کے چوک میں ایک مشہور ہوٹل پر چائے کے لئے رکے تو میرے ساتھی نے گلاس میں کچھ پانی ڈال کر اسے ہلا کر صاف کیا اور جب پانی کو سڑک پر انڈیلا تو پانی بہنے کی بجائے سڑک کی سطح پر ہی ٹھہر گیا اور ہمارے چائے پینے تک جمنا شروع ہو چکا تھا۔ ویٹر پانی کی اس بے حرمتی پر ہمیں ناراضگی سے دیکھ رہا تھا۔
ہم زیارت کے نظارے کرکے وہاں سے روانہ ہوئے۔"کواس" سے گزرتے ہوئے "کچھ موڑ "پہنچے اور پھر زیارت کے پہاڑی سکسلے سے باہر آتے آتے "خانائی بابا" سے تھوڑا پہلے N50 کو زیارت موڑ کے مقام پر دوبارہ جالیا۔ یہ وہ سڑک تھی جو ژوب اور قلعہ سیف اللہ کی طرف سے آرہی تھی۔ ایک دفعہ پھر ہم "گلستان " سے ہوتے "کچلاک " پہنچے اور رات گئے کوئٹہ اپنے دفتر پہنچ گئے جہاں واٹر مینیجمنٹ پراجیکٹ کے مسائل ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ پتہ نہیں محکموں کی لڑائی کا ہمارے اس لمبے دورے کے دوران کیا فیصلہ ہوا تھا۔ انہی خیالات میں ہم سو گئے کیونکہ اگلے دن سکریٹری زراعت نے ہمیں طلب کر رکھا تھا۔