Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (11)
معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (11)
کنگری کے علاقے میں واٹر منیجمنٹ کی اسکیمیں دیکھتے ہوئے کافی دیر ہوگئی۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ یہیں سے "رکھنی " کے راستے بارکھان چلتے ہیں اور وہاں سے کوہلو چلے جایئں گے۔ کیونکہ اگر اس طرف آئے ہی ہوئے ہیں تو ان اضلاع کا دورہ بھی کر لیں تاکہ دوبارہ اتنا لمبا چکر نہ لگانا پڑے۔ تاہم ہم ہفتے بھر سے بھی لمبے اس پہاڑی راستوں کے سفر سے ٹوٹ چکے تھے اور واپس جانا چاہ رہے تھے۔ دوسرے کوئٹہ سے نکلے کافی دن ہو چکے تھے اور ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہماری غیر موجودگی میں وہاں پراجیکٹ کے معاملات کیسے چل رہے ہیں۔ محکمہ زراعت اور pmu کا آپس میں کوئی تصفیہ ہوا یا نہیں؟
اس زمانے میں موبائل نیٹ ورک صرف کوئٹہ میں کام کرتا تھا اور یا پھر ژوب جاکر کچھ سگنل آتے تھے۔ پی ٹی سی ایل کی سہولت اکا دکا جگہ پر میسر تھی مگر جب ہم سارے دن کے وزٹ کے بعد رات کو کسی ایسی جگہ پہنچتے جہاں پی ٹی سی ایل سروس ہوتی تو pco بند ہو چکے ہوتے یا پھر ہمارا دفتر بند ہوتا۔ لہذا میرکاروان کے طور پر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ابھی پراجیکٹ میں بہت وقت باقی ہے۔ بارکھان اور کوہلو اگلے کسی وزٹ میں دیکھ لیں گے۔ ہمیں اب کوئٹہ واپس چل کر پراجیکٹ کے حالات معلوم کرنے چاہئیں۔
تاہم اس کے بعد حالات ایسے ہوئے کہ پراجیکٹ کے پانچ چھ سالوں میں ہمیں کوہلو بارکھان جانے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ بارکھان کے ہمارے دوست غلام رسول صاحب آج تک ہم سے ناراض ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہوا کہ اس وزٹ کے جائزے میں یہ طے ہوا کہ لورا لائی میں ایک کیمپ آفس قائم کیا جائے جس میں موجود ایک فیلڈ انجنئیر کے ذمہ کوہلو اور بارکھان کے اضلاع کہ ذمہ داری ہو جب کہ بارکھان اور کوہلو میں ہمارے سائٹ انجنئر تعینات ہوں۔
کوہلو میں ہمارے سائٹ انجنئر مری صاحب مقامی طور پر بڑے بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ صاحب سول انجنئر تھے اور سلجھے ہوئے نوجوان تھے۔ اتنے ہائی پروفائل کے باوجود بہت عزت سے پیش آتے۔ ان کی ہماری ٹیم میں پراجیکٹ کے شروع ہیں ہی شمولیت ہوگئی تھی۔ ان کی ملازمت پر ہمارے اعلی حکام کو کچھ اعتراض تھے لیکن وہ ہمارے پراجیکٹ کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوئے۔
اس وقت کوہلو بلوچستان کے شورش زدہ علاقہ شمار کیا جاتا تھا جہاں بعد ازاں بگٹی صاحب کو بھی قتل کیا گیا۔ جنرل مشرف کے دورہ کوہلو میں ان کے قافلے کے ایک ہیل کاپٹر کو بھی راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جس میں ایک جنرل صاحب زخمی ہوئے۔ سڑک پر سفر کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے اور لینڈ مائنز کا خطرہ ہوتا تھا۔ ایک سائٹ وزٹ میں جب ہماری ٹیم ایک اسکیم کو وزٹ کرکے جیسے ہی روانہ ہوئی تو وہاں ٹائم ڈیوائس پھٹ گیا جس سے دو افراد جاں بحق ہو گئے۔
چونکہ ہمارے ہراجیکٹ کا نام "پریذیڈنٹ نیشنل پروگرام " تھا اوراس وقت پریزیڈنٹ مشرف کی بلوچستان میں سب سے زیادہ مخالفت کوہلو میں ہی تھی جس کی وجہ سے ہماری ٹیموں کو محتاط رہنا پڑتا تھا۔ تاہم مری صاحب کی ہمراہی میں فیلڈ ٹیمیں دوردراز کی اسکیمیں وزٹ کر لیتیں اور ان علاقوں میں بھی پراجیکٹ پر کام مِمکن ہوسکا جہاں ویسے ہماری ٹیموں کی رسائی شائد ممکن نہ ہوتی۔ یہ لوگ مری صاحب کے ڈیرے پر رات بھی گزار لیتے اور کمیونٹی کے لوگ وہاں آکر ان سے اپنے علاقوں میں کام کے حوالے سے گفت وشنید کر لیتے۔ ایسے ہی گمنام ہیروں کی وجہ سے اتنے دشوار علاقوں میں کام ممکن ہوا اور ان جیسے لوگوں نے ہی ان مشکل علاقوں میں سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھا ہوا ہے۔ بارکھان میں حالات کوہلو سے کچھ بہتر تھے۔ وہاں محکمہ زراعت کے افسر غلام رسول صاحب ہماری ٹیموں کے ہمراہ ہوتے۔
بارکھان اور کوہلو کے لئے ہمارے فیلڈ انجنئیر محمد علی صاحب تھے جن کاتعلق لورالائی سے تھا۔ وہ "پنجابی " مسجد کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے اور ایک درویش صفت انسان تھے اور فیلڈ ورک سے بالکل نہ گھبراتے تھے۔ وزٹ کے دوران انہوں کے کئی دفعہ ان مشکل علاقوں میں مسجد میں رات گزار لی۔ لورالائی کیمپ آفس میں ہی ہمارے ڈیزائن انجنئیر احمد جان ناصر تھے جو کہ ایک تجربہ کار پروفیشنل تھے وہ بھی مقامی تھے اور لورالائی اور قلعہ سیف اللہ کے اضلاع کی اسکیموں کو دیکھتے تھے۔
ناصر قبائل لورالائی میں بڑی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ سردار یعقوب خان ناصر ان دنوں مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر تھے جس کہ وجہ سے لورالائی میں میاں برادران کے پوسٹر اور ن لیگ کے جھنڈے کثرت سے نظر آتے۔ پاکستان چوک پر میاں برادران کے قد آور بورڈ لگے ہوتے۔ یہی صورت حال قریبی ٹحصیل ہیڈکوارٹر "دکی" کی تھی جو سردار ناصر کا اپنا علاقہ تھا۔ پاس ہی زیارت کی تحصیل "سنجاوی" میں بھی ن لیگ کا کافی زور تھا۔
تاہم لورالائی اور قلعہ سیف اللہ سمیت شمالی بلوچستان کے پختون علاقے میں اس وقت مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کا طوطی بول رہا تھا۔ لورالائی سے ہی ان کے جماعت کے مولوی فیض اللہ صاحب صوبائی وزیر زراعت تھے اور ہمارے پراجیکٹ کے انچارج۔ ان کی وجہ سے لورالائی میں اس پراجیکٹ کا کافی زور تھا۔ الیکشن سے پہلے یہ ایک عام زندگی گزار رہے تھے اور گاوں کی ایک مسجد میں امامت فرماتے تھے لیکن ایم پی اے بن کر وزیر بن گئے اور پھر ان کا لائف اسٹائل دیکھتے ہی دیکھتے بہت تبدیل ہوگیا۔ فائیو ڈور پراڈو میں سفر کرتے اور پروٹوکول ساتھ ہوتا۔ شادیوں کے حوالے سے بھی کافی خبروں میں رہتے۔ ایک دفعہ یہ کوئٹہ میں ہماری میٹنگ چئیر کر رہے تھے تو اس بات پر سیخ پا ہوگئے کہ پریزنٹیشن والی سلائیڈ یں اردو میں کیوں نہیں۔
لورالائی میں اپنے کیمپ آفس کے بننے سے پہلے ہمارا قیام اری گیشن کالونی کے ریسٹ ہاؤس میں ہوتا۔ ہمیں اس پہلے سفر میں کنگری سے روانہ ہوتے ہوتے کافی دیر ہوگئی۔ ہم عصر کے بعد روانہ ہوئے۔ کنگری سے میختر تک ساری سڑک اکھاڑی جاچکی تھی اور ٹریفک ڈائی ورژن میں چل رہی تھی۔ ڈی جی خان سے براستہ فورٹ منرو، رکھنی اور کنگری، لورالائی تک ایک نئی چوڑی بین الصوبائی شاہراہ تعمیر ہورہی تھی۔ ساٹھ ستر کلومیٹر کی اس ڈائی ورژن کا سفر کافی صبر آزما تھا۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے ہر وقت راستہ بھولنے یا کسی کھڈے سے ٹکرانے کا خدشہ رہتا۔ چونکہ رات کو ٹریفک بہت کم تھی ایسے لگتا تھا کہ ہم پہاڑی علاقے میں ایک ہی جگہ پر گھوم پھر کر واپس آجاتے ہیں۔
سفر طے نہیں ہورہا تھا۔ تاہم ہمارے مقامی ڈرائیور نے اپنے ذہنی جی پی ایس کی مدد سے کسی طرح یہ سفر چار پانچ گھنٹوں میں طے کر ہی لیا۔ ہم رات گئے اری گیشن ریسٹ ہاؤس پورالائی پہنچے تھے جہاں اس وقت بجلی بند تھی۔ جسم بہت تھک چکا تھا اور ہم راستے میں کوئی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے کھانا بھی نہیں کھا سکے تھے۔ صبح زیارت کے راستے کوئٹہ واپسی تھی جہاں پراجیکٹ کی بہت بڑی بڑی خبریں ہمارے انتظار میں تھیں۔