Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (10)
معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (10)
سنگھر چیک پوسٹ سے توئی سر کے راستے میں کہیں کہیں پختہ بلیک ٹاپ سڑک کے کچھ ٹوٹے بھی مل جاتے۔ بایئں طرف چلنے والا کو سلیمان کا سلسلہ بہت حسین ہے اور اس کے اوپر لگے درخت اور سبزہ ویسٹرن یورپ کے کسی ملک کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ اس سلسلہ سے بہت سے چھوٹے پہاڑی نالے تیزی سے نیچے آتے ہیں جنہوں نے جگہ جگہ سے اس کچے راستے کو خراب کیا ہوا ہے۔ ساٹھ ستر کلومیٹر کا یہ سفر آرام سے تین سے چار گھنٹے لے لیتا ہے۔ راستے میں آپ کو جنگلی حیات کے نظارے بھی نظر آجاتے۔ تیتر تو بہت زیادہ تعداد میں راستے کے آس پاس چلتے اُڑتے نظر آتے جبکہ پہاڑیوں پر جنگلی زیتون کے پودے عام ملتے۔
اس راستے پر بہت سی جگہوں پر واٹر مینیجمنٹ کی اسکیمیں بن رہی تھیں۔ ان اسکیموں پر بہت ہی سادہ دل لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی گئیں اور سہہ پہر تک ہم اس بہت بڑے پہاڑی نالے تک پہنچ گئے جس کے دوسرے کنارے پر موسی خیل بازار کی آبادی تھی۔ توئی سر سے موسی خیل کے محکمہ زراعت کے ضلعی آفیسر حنیف خان صاحب بھی ہمارے ساتھ ہو لئے تھے۔ یہ بہت دلچسپ آدمی تھے۔ ایک اسکیم پر جب میں نے ان کی توجہ کنکریٹ کی خراب کوالٹی کی طرف دلوائی تو وہ زور زور سے "ویری گڈ ویری گڈ" کہنا شروع ہو گئے۔ ہمیں بہت حیرانی ہوئی کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ان سے پوچھا تو فرمانے لگے کہ یہ ویری گڈ آپ کو کہہ رہا ہوں کیوں کہ آپ نے ہمارا نقص پکڑ لیا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ حنیف صاحب آپ کام کی کوالٹی بڑھایئں تو ہم آپ کو لکھ کر "ویری گڈ" دیں گے۔
حنیف صاحب کے ساتھ ہم نے بہت مشکل وقت گزرا۔ اور پراجیکٹ میں سارا وقت ہمارا ان کے ساتھ اونچ نیچ ہی چلتی رہی۔ موسی خیل میں ہمارا قیام محکمہ زراعت کے احاطے میں ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑی کالونی تھی جو کہ محکمہ زراعت کے ہردل عزیر ڈائریکٹر جنرل چوہدری ذوالفقار صاحب کے دور میں جاپانی گرانٹ سے بنائی گئی تھی۔ اس کے بنتے وقت سب لوگ اس پر سوالات اٹھا رہے تھے کہ اس دور دراز علاقے میں اتنا انفرا سٹرکچر بنانے کا کیا تک ہے مگر اب یہ کالونی موسی خیل کے تمام ضلعی دفاتر کے لئے استعمال ہو رہی تھی۔ ریسٹ ہاؤس پر ڈی سی صاحب نے قبضہ کر رکھا تھا جس میں رہنے کا ہمیں کم ہی موقع ملا۔
موسی خیل کے ایک قیام کے دوران وہاں تعینات الیکشن کمیشن کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی جس کا تعلق پنجاب سے تھا اور وہ وہاں اپنی تعیناتی پر پریشان تھا اور تقریباً رو رہا تفا۔ اس نے 2004 کے ضلعی ناظم کے الیکشن کا دلچسپ قصہ سنایا جب فریقین کے ووٹ برابر ہونے پر ایک امیدوار نے دوسرے امیدوار کا ایک ووٹ چپکے سے اٹھا کر کھا لیا تھا تاکہ اپنی جیت کو پکا کر سکے۔
موسی خیل بازار ایک چھوٹا قصبہ ہے جہاں پر بمشکل چند سو گھرانے آباد تھے۔ اس قصبے سے ایک سڑک بایئں ہاتھ پر کو سلیمان کے اوپر موجود "درگ" قصبے تک جاتی ہے جو کہ پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس چھوٹے قصبے نے بلوچستان کو بہت سے اعلی سرکاری افسران اور بیورکریٹ دئے ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر "جعفر" قبیلے کے افراد رہتے ہیں اور بلوچستان میں یہ مشہور ہے کہ بلوچستان میں تین۔ ہی ہمیشہ سے حکومت کرتے آئے ہیں یعنی جام، جعفر اور جمالی۔"درگ" کے لوگوں کو تعلیم کے لئے کوہ سلیمان کی دوسری طرف تونسہ کی درس گاہیں میسر ہیں اور یہاں تعلیم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت اس کو پنجاب سے لنک کرنے کے لئے تونسہ موسی خیل جیسی مشکل سڑک بنوا رہی ہے جو کہ کوہ سلیمان کے اوپر "درگ" سے ہوتی ہوئی جائے گی۔
ان دنوں جنرل مشرف کی ضلعی حکومتوں کا خوب چرچا تھا۔ ایک دن موسی خیل کی ضلعی اسمبلی میں ایک او ایس ڈی بنائے گئے افسر نے جو کافی مہینوں سے بیکار پھر رہا تھا آکر ناظم صاحب کو درخواست کی کہ جس طرح لاہور کے پارکوں میں کچرے والے ڈبے لگے ہوتے ہیں اور ان پر لکھا ہوتا ہے "یوز می"۔ تو میری بھی آپ سے درخواست ہوگی کہ "یوز می"۔
ہمیں اپنے پراجیکٹ ٹیم کے لئے دو قابل قدر ہیرے موسی خیل سے ہی ملے تھے جن میں ایک نوجوان کا نام آصف بسم اللہ تھا جو کہ بلوچستان ڈپلومہ بورڈ کا ٹاپر تھا اور بہت محنتی لڑکا تھا اور دوسرا اس کا کزن ناور خان۔ ان دونوں نوجوانوں نے ہمارے پراجیکٹ ہر بے حد محنت اور بہت نام کمایا۔ ان سے تعلق داری آج تک قائم ہے۔ موسی خیل سے ہی ہمارے ایک اور قابل قدر دوست اور محکمہ آب پاشی کے ایس ای جہانگیر جعفر صاحب بھی ہیں جو سو ڈیموں کے ہراجیکٹ میں ہمارے ساتھ تھے۔
موسی خیل سے کنگری جانے والی سڑک کے اوپر آپ کو بہت ہی خوب صورت قدرتی نظارے نظر آتے ہیں جو کہ پاکستان کےشمالی علاقوں کے کسی بھی منظر سے کم نہیں۔ یہ سڑک اونچی نیچی ڈھلوانوں ہر چلتی، سر سبز و شاداب قطعات سے گزرتی خوب صورت نظارے پیش کرتی ہے۔ کنگری سے گزرنے والی قومی شاہراہ N-70 مشرق میں ڈی جی خان اور مغرب میں لورالائی کو جاتی ہے۔ کنگری میں برلب سڑک محکمہ آب پاشی کا ایک دو کمروں والا ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔ جہاں کبھی کبھا ہمارا قیام رہا۔
موسی خیل بازار سے ایک سڑک براستہ مرغہ کبزئی بھی لورالائی اور ژوب جاتی ہے۔ اس راستے پر جنگلی زیتون کی بہتات ہے اور ندی میں چلنے والے پانی کا رنگ فیروزی سا ہوتا ہے جو کہ شائد اس علاقے کے پہاڑوں کے کوئی منرل کانٹنٹ کا رنگ ہے۔ اس راستے کے اطراف پہاڑ زیادہ تر لائم اسٹون پتھر کے ہیں اور بہت کٹے پھٹے ہوئے ہیں۔ بعض جگہوں پر پتھروں کے ایسے نفیس گول ٹکڑے بھی دیکھے جیسے سر یہ کاٹ کر رکھا گیا ہو۔ مرغہ کبزئی تقریباً ایک چوراہا ہے جہاں سے چار اطراف میں راستے میختر، موسی خیل، ژوب اور لورالائی کو جاتے ہیں۔
موسی خیل میں کافی دفعہ جانا ہوا اور کئی دن اور راتیں بسر کیں۔ پراجیکٹ کے دوران وہ وقت بھی دیکھا جب وہاں جانے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں اور ساتھ ہی وہاں کے کئی دوسرے دوستوں نے پر تکلف تیتر روسٹ دعوتیں بھی کیں۔ کنگری میں ہی ہمارے مہربان دوست اور محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور شاہ صاحب کا گھر تھا جو کسی بھی وزٹ میں ہمیں مہمان نوازی کے بغیر نہ جانے دیتے۔ تاہم پاس ہی بارکھان میں اپنے دوست غلام رسول صاحب کے ہاں باوجود کوشش ک کبھی حاضر نہ ہوسکے جس کا افسوس رہے گا۔
پہلے سفر میں ہم موسی خیل سے براستہ کنگری لورالائی کی طرف واپس ہوئے تو N70 سڑک پر کام ہونے کی وجہ سے میختر تک ساری ڈائی ورژن بنی ہوئی تھی اور یہ سارا راستہ کچے سے ہوکر گزرتا تھا جس پر رات کو سفر کرنا ایک عذاب تھا۔