Lahore Aik Sponge City Banega?
لاہور ایک سپونج سٹی بنے گا؟
پچھلے ہفتے ڈی جی PDMA کی دعوت پر اُن کی ٹاپ ٹیم کے ساتھ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کو "سپونج سٹی" یا "پانی چوس شہر" بنانے کے آئیڈیے پر سیشن کرنے کا موقع ملا تاکہ لاہور اور دوسرے شہروں میں نہ صرف اربن فلڈنگ کو ختم کیا جاسکے بلکہ بارش کے پانی کو دوبارہ استعمال بھی کیا جائے۔
سپونج سٹی کے آئیڈیا کی بنیاد تو گرچہ قدیمی پانی بچت طور طریقوں پر ہی ہے مگر اس کو نئی جدت دینے میں"کونجیان یُو" کا بڑا نام ہے جو پیشے کے لحاظ سے ایک لینڈ سکیپ آرکیٹیکٹ ہیں اور "ٹیورن سکیپ" فرم کے بانی ہیں۔
سنہ 2013 میں چین میں بے حد اربن فلڈنگ ہوئی جس کے بعد حکومت نے مسٹر "Yu"کے آئیڈیے کو اپناتے ہوئے 30 شہروں کو سپونج سٹی بنانے کا منصوبہ بنایا۔
چین کے ہینان جزیرے کے ایک شہر سانیا میں، یو اور ان کی ٹیم نے بڑے پیمانے پر پارک بنایا جو قدرتی طور پر سیلاب سے بچنے کے لیے پانی کا انتظام کرتا ہے۔
شہر میں کنکریٹ کی سیلابی دیواریں، جنہوں نے حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچایا تھا، کی جگہ اسپنج نما گیلی زمینوں، ٹیرس پشتوں، تالابوں، چاولوں کے پنیریوں اور سبزہ زاروں نے لے لی جو اربن فلڈنگ کے دوران اندازاً 830,000 کیوبک میٹر طوفانی پانی کو سما سکتے ہیں اور ان سب کے ساتھ پیدل چلنے والوں اور سائیکل چلانے والے کے راستوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے ہیں۔
یو نے اسے اسپنج سٹی کے نفاذ کا "ایک مثالی نمونہ" قرار دیا ہے۔ تقریباً 200 شہروں کے میئرز نے حوصلہ افزائی کے لیے اس کا دورہ کیا ہے۔ Yu نے چین کے ژیان سے چونگ کنگ تک چین کے بہت سے شہروں کے لئے اسی طرح کے کئی منصوبے فراہم کیے ہیں۔
ڈنمارک میں، Tredje Natur نامی ادارے نے ایک سوراخ شدہ "ماحولیاتی ٹائل" تیار کیا ہے جو زیادہ بارش کے پانی کو جذب کرنے کا کام کرتا ہے۔
نیو یارک شہر میں، جہاں ایک اندازے کے مطابق 70 فیصد شہر ناقابل تسخیر مواد سے ڈھکا ہوا ہے وہاں اس موسم گرما میں بروکلین میں سات میل کے مسام دار فرش کی تنصیب پر کام شروع کیا گیا تاکہ لاکھوں گیلن بارش کے پانی کو گٹروں میں بہنے سے روک کر سیلاب کو کم کیا جا سکے۔ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں فٹ پاتھوں کے ساتھ سبزہ والی کیاریاں بنائی جارہی ہیں۔
ایمسٹرڈیم میں، EU کے تعاون سے چلنے والے Resilio پروجیکٹ نے شہر کے چار محلوں میں سماجی ہاؤسنگ کمپلیکس پر 12,683 مربع میٹر سے زیادہ نیلی سبز چھتیں بنائیں جن میں سے کچھ چھتیں مکمل طور پر پودوں سے ڈھکی ہوئی ہیں اور نہ صرف رہائشیوں کے لیے لطف اندوز ہونے کے لیے جگہ فراہم کرتی ہیں بلکہ بارش کے پانی کو چھت پر ہی روک لیتی ہیں۔
کراچی میں آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے بھی تجرباتی طور پر یہ کام شروع کیا ہوا ہے۔ ان کے پراجیکٹ "Climate Smart Eco Streets" کے تحت کراچی کے تاریخی علاقے ڈینسو ہال رہگزر کی شاپنگ سٹریٹ کو "سبز گلی" بنایا جارہا ہے جس کے تحت لُک کی سڑک کو پانی جذب کرنے والی ٹائلوں سے بدلا گیا ہے اور گلی کے اندر چھوٹے چھوٹے باغیچے بناکر درخت اور سبزہ اگایا جارہا ہے اور فٹ پاتھوں کے ساتھ پانی چوس کنویں بناکر بارش کا پانی جذب کروایا جائے گا۔
پنجاب حکومت PDMA کے تحت بھی اربن فلڈنگ کے خطرات کو روکنا چاہتی ہے۔ میرے خیال کے مطابق لاہور میں کنکریٹ اور سریے سے بنے اربوں کھربوں منصوبوں کی بجائے سپونج سٹی آئیڈیا پر پہلے سے موجود باغات، پارکس، گراونڈر، لان، نہروں، فٹ پاتھوں اور پارکنگ ایریا کو استعمال کرکے بارش کا بہت سا پانی بہنے کی بجائے جذب کروایا جا سکتا ہے اور یہی PDMA کے افسران کے ساتھ میرے سیشن کا مرکزی نقطہ رہا۔ اُمید ہے کہ ان بنیادوں پر جلد ہی کام شروع ہو جائے گا ان شااللہ۔
سپونج سٹی کے تحت منصوبوں کا مقصد لاہور شہر کی پختہ تعمیرات کو مسام دار بنانا، زیادہ سے زیادہ سبزہ زار جگہیں نکالنا اور پانی روکنے والے تالاب اور جھیلیں بنانا ہے۔ پاکستان کے بڑوں شہروں میں لاہور اور اسلام آباد اپنے کھلے علاقوں کی وجہ سے جلد سپونج سٹی بن سکتے ہیں۔