Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Kis Se Munsafi Chahein?

Kis Se Munsafi Chahein?

کس سے منصفی چاہیں؟

شاہ جی نے سگریٹ کا لمبا کش لیا، چاروں طرف ایک گہری نظر دوڑائی اور اعلان کیا "یہ جگہ اسپل وے کے لئے صحیح ہے"۔ ہم اس وقت "سرخ سمندر" ریاست کے پہاڑی سلسلے کی سو میٹر سے زیادہ بلند ایک پہاڑی چوٹی پر موجود تھے اور تیز ہواؤں کی زد میں تھے۔ نیچے دریا میں ہماری گاڑیاں اور قافلے کے لوگ نقطوں کی مانند نظر آرہے تھے۔ یہ پہاڑی سلسلہ شمال میں مصر کی سرحد سے شروع ہوکر تقریباً 600کلو میٹر جنوب میں اریٹیریا کی سرحد تک بحیرہ احمر کے متوازی چلتا ہے اور کوئی بیس کلومیٹرچوڑی ساحلی پٹی کو صحرائے صحارہ سے جدا رکھتا ہے۔

آج صبح پورٹ سوڈان کے "بوہین" ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہمارا آج کا دن کتنا پرخطر اور کتنا دلچسپ ہوگا؟ شہر سے نکلتے ہی سڑک پہاڑی سلسلے کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ جہاں بہت آگے جاکر سڑک کا کچھ حصہ ون وے ہے، جہاں پر ہمارے سامنے سے کسی گاڑی کا آنا ممکن نہ تھا لیکن یہاں تو آٹھ سے دس گاڑیوں کا پورا کا نوائے بمعہ ہوٹر والی گاڑیوں کے مخالف سمت سے ہماری طرف پوری رفتار سے بڑھ رہا تھا۔ میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا "یا عثمان، گاڑی سائیڈ پر کر کے کھڑی کرلو اور صاحب لوگوں کو گزرنے دو"۔

کا نوائے ہمارے پاس پہنچ کر رک گیا اور ہماری گاڑی کو اس میں شامل ہونے کا حکم دیا گیا۔ ہم جس سمت سے آرہے تھے ادھر ہی اب واپس جا رہے تھے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد گاڑیاں دائیں طرف کچے میں اتر گئیں۔ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کوئی آدھا گھنٹہ کچے میں چلنے کی بعد گاڑیاں ایک گاوں میں چوراہے پر رک گئیں جہاں ایک ہجوم جمع تھا اور ہر کسی نے ہاتھ میں ڈنڈے پکڑے ہوئے تھے، چند ایک لوگوں کے ہاتھ میں تلواریں بھی نظر آرہی تھیں۔ کا نوائے کے سب لوگ گاڑیوں سے نیچے اترنے لگے۔ شاہ جی نے علی مولا نعرہ لگایا اور ڈرائیور سے کہا"یا عثمان جاؤ جاکر پتہ کرو کہ قصہ کیا ہے"؟

اتنی دیر میں ہجوم نے ڈنڈے بلند کرکے پرجوش نعرے بلند کرنے شروع کر دئیے۔ جوابا ََ، ہمارے قافلے کے لیڈر جو کہ وردی میں ملبوس تھے انہوں نے بھی اپنا مکا ہوا میں بلند کرکے نعرے لگانے شروع کررہے۔ عثمان بڑی دلچسپ اور خطرے والی خبر لایا۔ پتہ چلا کہ اس علاقے میں حکومت مقامی لوگوں کے لئے ایک ڈیم بنانا چاہتی ہے لیکن علاقے کے دو قبائل میں اس بات پر تنازع ہے کہ یہ ڈیم ان کے علاقے میں ہی بننا چاہئے۔ یہ تنازع کافی عرصے سےحل نہیں ہورہا تھا، اب آپ لوگ آئے ہیں تو یہاں کے کمشنر نے موقع مناسب جانتے ہوئے مقامی آبادی کو راضی کیا ہے کہ "ڈیم کی جگہ کا فیصلہ ہمارے پاکستانی بھائی کریں گے"۔

میں نے اور شاہ جی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھااور فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم نے گاڑی سے نہیں اترنا۔ ہمارے ساتھی محکمہ بجلی اور ڈیموں کے مقامی عہدیداران اور قبائلیوں نے ہمیں چائے پانی کے لئے بہت اصرار کیا مگر ہم نے معذرت کرلی۔ تھوڑی دیر بعد جب یہ قافلہ ڈیم سائٹ کے لئے روانہ ہوا تو ہماری گاڑیوں کے پیچھے قبائلی ہاتھوں میں ڈنڈے لہراتے بھاگتے نظر آئے۔ سائٹ پر پہنچ کر پتہ چلا کہ دوسری پارٹی اپنے ڈنڈوں سمیت پہلے ہی ادھر موجود تھی اور ہمارا انتظار ہو رہا تھا۔ یہاں پر پھر وہی روایتی طریقے سے ڈنڈوں والے ہاتھ بلند کرکے استقبالیہ نعرہ بازی ہوئی اور مکے لہرا کر جواب دیا گیا۔

اس سے پہلے کہ ہمارے پیچھے دوڑنے والے قبائلی یہاں پہنچتے، ہمیں جلدی سے کسی محفوظ جگہ پہنچنا تھا۔ ہم نے ایک پہاڑی چوٹی کا انتخاب کیا جس کے اوپر جا کر دیکھنے سے ڈیم کی جگہ اور پراجیکٹ کے باقی حصوں کی ممکنہ جگہوں کی ابتدائی نشاندہی کی جا سکتی تھی۔ اب ہم اس پہاڑی چوٹی پر کھڑے ہو کر نہ صرف سارے علاقے کو تکنیکی طور پر جانچ رہے تھے بلکہ ایمر جنسی میں جان بچانے والی، سکھائی گئی تمام ترکیبوں پر ذہن دوڑ آرہے تھے۔ چوٹی پر چیل نے گھونسلہ بنایا ہوا تھا اور ہمیں وہاں پر بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔

ہم بڑے بڑے مشکل منصوبوں کے تکنیکی ڈیزائن پر کام کر چکے تھے لیکن یہاں پر مسئلہ مقامی لوگوں کی خواہشات اور امنگوں پر پورا اترنے یا نہ اترنے کا تھا۔ چھوٹی سی غلطی سے معاملات بگڑ سکتے تھے۔ سرخ سمندر کی اس پہاڑی چوٹی پر ہم نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی سب سے مشکل سیاسی تقریر کا متن تیار کیا، جس کے مطابق دونوں قبائل کی جگہ نہایت مناسب تھی لیکن آخری فیصلہ کمپیوٹر ماڈل نے کرنا تھا۔ جو کہ خوش قسمتی سے ایک ہزار کلو میٹر دور خرطوم میں میرے دفتر کے کمپیوٹر پر موجود تھا۔ کوئی گھنٹہ دو کی، کہ پیمائی کے بعد نیچے اترنے پر معلوم ہوا کہ دونوں قبائل میں ڈنڈے سوٹوں کی لڑائی ہو کر تھم چکی ہے اور کمشنر صاحب سمیت سب لوگ ہمارے بھاشن کے انتظار میں ہیں۔

ہم نے مختصر ترین الفاظ میں اپنا بیان دیا اور اس سے پہلے کہ کمشنر صاحب اس کا عربی میں ترجمہ کرتے، عثمان ہماری گاڑی کو بھگانے کے لئے سیدھا کرکے سٹارٹ کر چکا تھا۔ ہمارے کمپیوٹر پروگرام نے ڈیم کو اس جگہ سے نیچے لے جانے کا حکم دیا تھا جو ان دونوں جگہوں سے زیادہ مناسب نظر آرہی تھی۔ اور ڈیم کی نئی جگہ پر دونوں قبائل کافی بیچ بچاو اور مذاکرات کے راضی ہو گئے تھے کیونکہ یہ "السید الباکستانی "کے کمپیوٹر کا فیصلہ تھا۔ ہماری ٹیم نے اس کا ڈیزائن اگست 2013 میں مکمل کیا۔ اس کے بعد اس کی تعمیر شروع ہوئی۔

پانچ سال بعد اکتوبر 2018 میں ایک ورک شاپ کے سلسلے میں خرطوم جانا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ڈیم مکمل ہو چکا ہے اور دونوں قبائل اس سے فائد ہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کے چند دلچسپ اور اہم منصوبوں میں سے ایک تھا جہاں ٹیکنیکل کے ساتھ ساتھ سوشل چیلنجز زیادہ درپیش تھے۔ یہ پراجیکٹ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ اس علاقے میں انسانوں اور جانوروں کے لیے پانی کی بہت قلت تھی۔ اس ڈیم کا نام "جبیت الاشراف ڈیم "ہے اور پہلی تصویر ڈیم بننے سے پہلے 2013 میں ہمارے دورے کے موقع پر میں نے لی تھی، جب کہ دوسری تصویر 2017 کی ہے جس میں ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی نظر آرہا ہے۔

Check Also

9 Lakh Ki Azmat Aur Awam Ka Qarz

By Muhammad Salahuddin