Hub Dam
حب ڈیم
کراچی کے نواح میں حب ڈیم پانی کے مکمل بھرنے کے نشان (لیول 336 فُٹ) تک پہنچ چکا ہے اور پانی اگر 4 فُٹ مزید بُلند ہوا تو اس کا اسپل وے چل پڑے گا۔ یہ ڈیم2020,2022 اور 2023 بھی پانی سے مکمل بھر گیا تھا۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ اپنی تکمیل کے 40 سال کے اندر اس کا اسپل وے دوتین بار ہی چلا تھا یعنی تقریباً ہر دس سال بعد ایک دفعہ لیکن صرف پچھلے 5 سال میں سپل وے 4 دفعہ چلا ہے یعنی ہر سال۔
یہ موسمی تبدیلی کا اشارہ ہے جو ہمیں یہ موقع دے رہا ہے کہ حب ڈیم کے اوپر کی طرف دریا پر کوئی مناسب جگہ ڈھونڈ کر ایک "کیری اوور" ڈیم بنا یا جائے تاکہ حب ڈیم کو خطرے میں ڈالنے یا اسپل وے سے حب ڈیم کے حجم کے برابر پانی گزار کر سمندر برد کرنے کی بجائے کراچی اور بلوچستان کے لئے مزید ذخیرہ کیا جاسکے۔
اس زائد پانی کو ڈیم سے نیچے دریائے حب کے اندر مناسب جگہ پر بیراج بنا کر بھی روکا جا سکتا ہے اور اس کا رخ نشیبی زمینوں یا آف لائن اسٹوریجز کی طرف موڑا جاسکتا ہے اوراس سےزیر زمین پانی ری چارج کیا جا سکتا ہے۔
حب ڈیم میں ستر فی صد تک پانی بلوچستان کا آرہا ہے لیکن بلوچستان کو لسبیلہ کینال سے زیادہ سے زیادہ 170 کیوسک پانی ہی مل سکتا ہے۔ لیکن نہر میں اکثر 100 کیوسک سے زیادہ پانی چھوڑا ہی نہیں جاتا۔
اب حکومتِ بلوچستان نے حب ڈیم کے کیچمنٹ میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کی اسٹڈی کروائی ہے تاکہ مقامی ضروریات کا پانی تھوڑا تھوڑا وہیں پر ہی جمع کیا جائے جہاں سے پانی کا بہاؤ شروع ہوتا ہے۔
حب ڈیم کراچی کی تین سال تک پانی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور کیری اوور ڈیم بننے سے یہ وقت کچھ سال اور بڑھایا جاسکتا ہےلیکن افسوس اس ڈیم کا پانی کراچی پہنچ کر بِکتا ہے یہ ایک بہت بڑا کاروبار ہے۔
حب ڈیم کا ابتدائی کام ستمبر 1963 میں شروع ہوا اور یہ جون 1981 میں مکمل ہوا۔ حب ڈیم ایک بین الصوبائی منصوبہ ہے کیونکہ اس سے سندھ اور بلوچستان دونوں فائدہ لیتے ہیں۔
اس منصوبے کو کراچی (سندھ) کو میونسپل اور صنعتی مقاصد کے لیے 100 ایم جی ڈی (ملین گیلن یومیہ) پانی فراہم کرنے اور 15 ایم جی ڈی بلوچستان کی صنعتوں کو فراہم کرنے کے علاوہ ضلع لسبیلہ میں 21,000 ایکڑ اراضی (سی سی اے) کی آبپاشی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
پانی کے ذخیرے میں سندھ کا 63.3% اور بلوچستان کا 36.7% حصہ ہے۔ پانی کی فراہمی 75 سال کی مدت کے لیے یقینی ہے۔