Dunya Kaise Sochti Hai?
دنیا کیسے سوچتی ہے؟
2015 میں انڈونیشیا میں مغربی جاوا کے صنعتی شہر بنڈونگ کے پانی کے تحقیقی ادارے میں ایک ورکشاپ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ اس شہر کے آس پاس کپڑے بنانے کی بہت بڑی انڈسٹری ہے جہاں بننے والا کپڑا پوری دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ بڑے بڑے مال اور فیکٹری آوٹ لیٹس ہیں جہاں پر سستی شاپنگ کرنے والوں کا رش پکا ہوتا ہے۔ ہمارا قیام ہوٹل جکارتہ میں تھا اور روزانہ ریسرچ سنٹر آتے جاتے ہوئے اتنے بڑے شہر میں ٹریفک پولیس نظر نہ آئی۔
اگر کہیں ٹریفک کا رش ہوجاتا یا ٹریفک جام ہونے لگتا تو دیکھا کہ ایک بندہ کہیں سے نمودار ہوتا اور چوراہے میں کھڑا ہوکر ٹریفک کو ریگو لیٹ کرنا شروع کر دیتا ۔ لوگ اس کے ہاتھ کے اشارے پر گاڑی روک لیتے یا آگے بڑھا لیتے اور جاتے جاتے اس بندے کے ہاتھ میں کچھ رقم بھی تھما جاتے۔ یوں دو تین منٹ میں ٹریفک کھل جاتی اور اس کے بعد وہ بندہ غائب جب متعدد مرتبہ یہ منظر دیکھا تو اپنے میزبانوں سے اس فرشتہ صفت بندے کے بارے میں پوچھا۔
پتہ چلا کہ یہاں ٹریفک پولیس نہیں ہے اور ضرورت پڑنے پریہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک ریگولیٹ کرتے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ ہمارے ہاں جون 2017 میں کوئٹہ شہر میں ایک ٹریفک وارڈن کو ایک ایم پی اے نے گاڑی سے ٹکر مار کر مار دیا تھا جوکہ اسے رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ ایک دن بنڈونگ کےریسرچ سنٹر پہنچے تو پتہ چلا کہ ادارے کا سارا سٹاف دفتر کے سامنے والے لان میں جمع ہے اور ڈائریکٹر صاحب انسٹرکٹر بن کر سارے اسٹاف کو ایکسر سائز کروا رہے ہیں جب کہ بیک گراونڈ میں میوزک چل رہا ہے۔
وہاں ہر گورنمنٹ ادارے میں ہفتے میں ایک دن تیس منٹ سے ایک گھنٹے کی ورزش کروانا ادارے کے سربراہ پر لازم ہے۔ سائٹ وزٹ پر جب بھی گئے تو ہر چھوٹے بڑے کو ایک ہی قسم ڈیزائن کی شرٹ پہننا ضروری تھا تاکہ گروپ کی پہچان رہ سکے کیا نظم ضبط ہے حج عمرہ پر جانے والے احباب انڈونشئین لوگوں کی ایک جیسے پہچان والے لباس یا لائن بنا کر طواف کرنے کو دیکھ چکے ہوں گےہمارے ہاں کھانا کھل گیا اے اسی طرح 2007 میں ناروے میں پن بجلی پر ایک کورس پڑھنے گیا ہوا تھا کہ ناروے کا یوم آزادی اسی دوران آگیا۔
ادارے نے ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیااسٹیج پروگرام ہوئے ڈنر پر دیکھا کہ کورس کے انچارج نارویجئن پروفیسر نے شرکا کے اصرار کے باوجود ڈرنک کرنے سے معذرت کر رہے تھے کیونکہ انہیں خود ڈرائیو کرکے گھر واپس لوٹنا تھاکمال کا سیلف کنٹرول اور قانون کا احترام تھا تاہم جب اسی کورس کے اختتام پر لاہور واپسی بذریعہ دوبئی ہو رہی تھی تو ایک اور نظارہ دیکھا۔ اوسلو سے ہی کچھ پاکستانی فلائٹ میں ساتھ بیٹھ گئے تھے جنہوں نے دبئی ایئرپورٹ تک تو صحیح رویہ رکھا مگر لاہور ائیرپورٹ پر جہاز کے دروازے سے نکلتے ہی سگریٹ سلگا لئے۔
جب میں نے ان کی توجہ دلائی کہ ائیرپورٹ نو سموکنگ زون ہے اور پسینجر ٹنل میں تو سگریٹ نوشی بالکل منع ہے تو فرمانے لگے کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے اور یہاں ہمیں ہر کام کرنے کی آزادی ہے۔پاکستان میں ہم صرف یہی آزادی ہی تو انجوائے کرنے ہیں۔