Do Gaz Zameen Ke Dais Mein
دو گز زمین کے دیس میں
ماحول میں بہت پراسرایت ہے۔ ایک خاموشی سی چھائی ہے۔ ہمارے علاوہ سڑک پر کو ئی نہیں جا رہا۔ دونوں طرف سبزہ اور اونچے درخت نظر آرہے ہیں۔ کبھی کبھی اکا دکا گاڑی کے گزرنے سے ماحول کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جا رہے ہیں جنگل گھنا ہوتا جا رہا ہے اور ہم دونوں دوست اس جنگل میں مغل سلطنت کے آخری تاجدار کی اس دو گز زمین کو کھوجنے نکلے ہوئے ہیں جو اسے کوئے یار سے دور ملی ہے۔ عجیب لوگ ہیں یہ رنگون والے بھی جو بہادر شاہ ظفر کا نام سن کر بھی کندھا اچکا دیتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہو۔ ادھر ہم پاکستانی ہیں کہ جو بھی رنگون پہنچتا ہے اسکی آخری آرام گا تلاش کرنا شروع ہو جاتا ہے۔
جنگل میں سڑک کے ایک چوراہے پر جاکر نظر آتا ہے کہ تاجدار ہند کی قبر پر ایک درگاہ تعمیر ہو چکی ہے جہاں ایک برمی مسلمان میاں بیوی نیم خوابیدہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ درگاہ بھی حکومت پاکستان نے تعمیر کروائی ہے۔ یہاں پر تاجداران پاکستان میاں محمد نواز شریف۔ جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری صاحب بطور سربراہ حکومت تشریف لا چکے ہیں۔ ان کےدوروں کی تصاویر باہر ہال میں آویزاں ہیں۔ مزار کے کمرے کے اندر قطار میں چار بڑی بڑی قبریں ہیں جن پر کڑھائی والی سبز چادریں ہیں۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد ہے جو پتہ نہیں کب سے اپنے نمازیوں کی منتظر ہے۔ مجاور میاں بیوی کی مٹھی گرم کرنے پر وہ آپ کو بہادر شاہ ظفر کی نیچے تہ خانے والی اصل قبر تک لے جاتے ہیں کیونکہ روایت ہے کہ انگریزوں نے ان کی وفات کے بعد تہ خانے میں ہی دفنا دیا تھا۔ جو کہ اوپر مزار والی قبر سے ہٹ کر ہے۔
اس وقت میں اور فضل اکبر آفریدی، شہنشاہ ہند کی گمشدہ رعایا کے دو افراد، اس کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کیسے شہنشاہ نے تخت و تاج کے حصول کے لئے درباری شازشیں بنی ہوں گی اور اپنے کئی پیاروں کے گلوں پر خنجر چلوائے ہوں گے۔ دوگز سے زیادہ زمین پر بنی یہ درگاہ مادی دنیا کے حصول کے لئے مارے مارے پھرنے والوں کے لئے جائے عبرت بنی ہوئی تھی۔ درگا کے دائیں کونے میں ایک چائے خانہ ہے جہاں آپ کو دو چار لوگ بیٹھے گپیں مارتے نظر آئیں گے۔
رنگون (موجودہ نام ینگون) شہر کے مسلم اکثریتی حصے میں کئی لوگ اب بھی اپنے آپ مغل بادشاہ کی اولاد سے بتاتے مل جایئں گے۔ اس علاقے میں جائیں تو آپ کو دوسرے علاقوں کی بہ نسبت سڑکوں پر آبادی ابل کر آتی ہوئی ملے گی۔ سڑک کنارے چائے، سگریٹ پان کے کھوکھے ملیں گے اور رنگون کے باقی علاقوں کے برعکس فارغ لوگ تھڑوں پر بیٹھے تاش یا گوٹ کھیلتے نظر آئیں گے۔
شہنشاہ ہند کی اولاد میں سے ہونے کا دعوی کرتے ایک برمی مسلمان سے جو کہ منہ میں پان چباتے ہوئے بولنے سے قاصر تھا ہم نے بھی درگاہ کے نیم تاریک چائے خانے میں بیٹھ کر دودھ والی چائے پی اور درگاہ کی ویران مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنے ہوٹل کی راہ لی۔