Dhoti Wale Major Se Mulaqat
دھوتی والے میجر سے ملاقات
میں اس جوڑے کو کافی دنوں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ صبح سویرے تیار ہوتے۔ مرد ایک پرانی سی موٹرسائیکل پر صبح اپنے چار بچوں کو آگے پیچھے بٹھا کر اسکول چھوڑنے جاتا اور واپس آکر پھر وہ دونوں میاں بیوی اکٹھے اسی پرانی بائیک پر بیٹھ کر دفتر روانہ ہو جاتے۔ شام کو دفتر سے واپسی کے بعد مرد نے مقامی ملائشین لنگی یا دھوتی باندھی ہوئی ہوتی اور اوپر پھولدار شرٹ پہن کر پھر رہا ہوتا۔
کبھی گروسری کرکے لا رہا ہوتا تو کبھی اپنی گھر والی کے ساتھ پارک میں بچے کھلا رہا ہوتا۔ میری رہائش کوالالمپور سیٹیلائٹ سنٹر کی بیس منزلہ اپارٹمنٹس بلڈنگ "وانگسا ماجو ہائٹس " کی بارہویں منزل پر تھی اور یہ جوڑا میرے بائیں طرف والے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ مجھے پاکستان سے پہلی بار ملائیشیا پہنچے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا اور میں ابھی تک اپنے آپ کو یہاں کے ماحول سے ایڈجسٹ کرنے میں مصروف تھا۔
ایک دن لفٹ میں اس جوڑے سے ملاقات ہو گئی۔ تعارف ہونے پر مرد نے اپنا نام ارشد رظلی اور عورت نے نور رضوان بتایا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں پاکستان سے ہوں اور ان کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں تو انہوں نے مجھے چھٹی والے دن چائے کی دعوت دی تاکہ اچھی طرح تعارف ہو سکے۔ آج میں ان کے گھر پہنچا ہوا تھا جہاں ان کے پانچ بچوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔
ملائی فیملی کے ہاں اوسطاََ چھ، سات بچوں کی پیدائش ایک عام بات تھی اور حکومت کی طرف سے ملائی فیملیوں کو آبادی بڑھانے کے لئے ترغیبات دی جاتی تھیں۔ ان کا میڈیکل، تعلیم، ریذیڈنشئیل، اسکول، کالج کے خرچے حتٰی کہ بیرونِ ملک کی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم تک کے خرچے حکومت برداشت کرتی تھی۔ اس وقت ملائشیا صنعتی ترقی کی معراج کو چھو رہا تھا اور ملک میں ورک فورس کی شدید کمی تھی۔
ملائیشیا کی آبادی پونے دو کروڑ کے قریب تھی اور شرح خواندگی بھی نوے فی صد سے اوپر۔ ہر گھرانے کے مرد و عورت دونوں کام کرتے تھے پھر بھی ملائشیا کو پچیس تیس لاکھ ورکروں کی کمی پڑ جاتی تھی جو کہ زیادہ تر انڈونیشیا سے آتے تھے یا پھر بنگلہ دیش اور انڈیا سے۔ یہ دونوں میاں بیوی بھی جاب کرتے تھے۔ ارشد رظلی نے جب باتوں کے دوران مجھے بتایا کہ وہ ملائشیا کی فوج کا حاضر سروس میجر ہے تو مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
کرائے کے اپارٹمنٹ میں رہنے والا اور پرانے اسکوٹر پر پھرنے والا حاضر سروس میجر جس کی بیوی بھی اسکول ٹیچری کرتی تھی تو گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اسے بطور میجر کوئی سرکاری رہائش، آرمی کی جیپ ڈرائیور یا کوئی "بٹ مین" وغیرہ نہیں ملا ہوا اور وہ وہ کینٹ میں کیوں نہیں رہتا؟ تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ کہنے لگا اس طرح کی عیاشی تو دنیا کی بڑی فوجیں کرتی ہیں۔
ملائشیا میں تو کوئی آرمی میں آنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ ہائی ٹیک انڈسٹری میں تنخواہیں زیادہ ہیں۔ جسے میری طرح کوئی اور نوکری نہ ملے وہ فوج میں آجاتا ہے اور ساری عمر دفتروں میں مکھیاں مارکر ریٹائر ہو جاتا ہے۔ ہماری کسی پڑوسی ملک کے ساتھ کوئی بھی دشمنی نہیں اور نا ہی ہم سے کوئی جنگ کرتا ہے کیونکہ ہماری معیشت مضبوط ہے اور ہم صلہ جو قوم ہیں۔ ہماری فوج علامتی فوج ہے۔
مجھے اس کی باتیں سن کر الجھن سی ہورہی تھی۔ وہ میری مشکل کو بھانپتے ہوئے بولا کہ چلو یہ بتاؤ ملائشیا کے چیف آف آرمی اسٹاف کا کیا نام ہے یا کبھی تم نے اس کا فوٹو کسی اخبار یا ٹی وی چینل پر کبھی دیکھا ہے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا کیونکہ میں نے واقعی ایسی کوئی بات نہیں دیکھی تھی۔ کہنے لگا اب دوسری طرف سوچو کہ ملائیشیا کی آدھی آبادی کو پتہ ہوگا کہ آج کل پاکستان کا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مشرف ہے بلکہ بہت سے پرانے لوگ تو جنرل ضیا کے نام سے بھی واقف ہیں۔
وہ مزیذ بولا کہ کل ہی ڈاکٹر مہاتیر نے ملائشیا میں بی ایم ڈبلیو کے نئے جدید پروڈکشن یونٹ کا افتتاح کیا ہے جبکہ میں سن رہا تھا کہ کچھ دن پہلے پاکستان نے لمبے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ برادر ہمارے پاس میزائل تو نہیں لیکن امن ہے اور کھانے کے لئے چاول۔
میجر ارشد کھڑا ہو کر اپنی ڈھیلی دھوتی باندھنے لگ گیا جب کہ میں اسے کہنا چاہ رہا تھا کہ تمہارے پاس انڈیا، امریکہ اور افغانستان جیسے پرامن ہمسائے بھی نہیں لیکن خاموش رہا۔ میں نے چائے پی کر رخصت لی تاکہ اس کے شرارتی بچوں کے شر سے بچ سکوں جنہوں نے اب میری نقلیں اتارنا شروع کردی تھیں اور مجھ سے شاہ رخ خان کے ڈائلاگ سننا چاہ رہے تھے۔