Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Badal Raha Hai Saudia (2)

Badal Raha Hai Saudia (2)

بدل رہا ہے سعودیہ (2)

پرنس کے ولی عہد بننے سے پہلے سعودی عرب شاید دُنیا کی واحد ریاست تھی جہاں آثارِ قدیمہ کا خاتمہ سرکاری پالیسی کے تحت ہورہا تھا۔ اسلاف سے منسلک ہر آثار کو اہتمام سے ختم کیا جاتا یا اس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی اور یا پھر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی۔ زیارات اور آثار تک رسائی مشکل عمل تھا اور اس بھرپور کی حوصلہ شکنی کی جاتی۔ 2012 میں جب ہم غارِ ثور جانے کے لئے جبلِ ثور کے دامن میں پہنچے تھے تو سرکار کے متعین عملے نے ہمیں پکڑ پکڑ کر اوپر جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی اور تبلیغ کی تھی کہ اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

تاہم پرنس کے ویژن 2030 میں آثارِ قدیمہ کی بحالی، دیکھ بھال اور زیارات تک رسائی کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں قومی سطح پر میوزیم کمیشن قائم کردیا ہے جس کا مقصد مذہب سے متعلق ہر قسم کی نادرو نایاب اشیا کو نہ صرف جمع کرنا بلکہ اس کی نمائش کرنا بھی ہے۔ اس سلسلے میں مدینہ شریف میں سیرت میوزیم اور ہسٹری میوزیم دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

اب اکثر آپ کو شاہراہوں پر زیارات اور آثار قدیمہ کی نشاندہی کرنے والے سائن بورڈ نظر آئیں گے اور آثار پر بڑے بڑے معلوماتی بورڈ ملیں گے جن پر نہ صرف عربی بلکہ انگلش میں بھی اس آثار یا زیارت کے بارے میں تاریخی معلومات درج ہوں گی۔ اس طرح کی ہر عمارت پر بڑا سا بورڈ "تاریخی ورثہ " لگا ہوگا اور QR کوڈ کو سکین کرکے آپ اس جگہ کے بارے میں مذید معلومات بھی پڑھ سکتے ہیں۔

سعودی عرب کے مرکزی بینک کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آنے والے سیاحوں نے 2023 میں 135 ارب ریال (40 ارب ڈالر) خرچ کیے جو ایک ریکارڈ ہےا ور 2022 کے مقابلے میں اس رقم میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔ سعودی عرب اقوام متحدہ کی ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی فہرست میں 2019 کے مقابلے میں 2023 میں بین الاقوامی سیاحوں کی تعداد میں اضافے کی شرح کے حوالے سے سرفہرست رہا ہے۔

سعودی عرب حج عمرہ زائرین کی تعداد کو 3 کروڑ سالانہ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے جو کہ اس وقت صرف سوا کروڑ سالانہ ہے جب کہ دوسرے سیاحوں کی تعداد 10 کروڑ تک لے جانے کا پروگرام ہے۔ یاد رہے کہ ملک کی کل آبادی 4 کروڑ بھی نہیں۔

مکہ اور مدینہ کے اندر اربن ٹرانسپورٹ کا نظام بھی جدید بنایا جارہا ہے۔ آپ کو انٹرنیشنل لیول کے بس اسٹاپ نظر آئیں گے جہاں پر آرام دہ کرسیاں، سائے کا بندوبست ہونے کے ساتھ ساتھ بس کر روٹ اور ٹائمنگ کے متعلق معلومات بھی لکھی نظر آئیں گی۔ کچھ عرصہ تک شاید آپ کو حرمین میں میٹرو ٹرانزٹ سسٹم بھی نظر آئے۔ حرم میں آپ کو خواتین والینٹئیر بھی زائر خواتین کو گائیڈ کرتی ملیں گی۔ ریاض الجنہ میں داخلہ اب Nusuk ایپ کے ذریعے پہلے سے اپانٹمنٹ سے طے کردیا گیا ہے اور کوئی دھکم پیل دیکھنے میں نہیں آتی۔

نیوم منصوبہ ابھی صرف اپنی بنیادوں پر ہی کام کررہا ہے لیکن صرف یورپ کی 1300 سے زائد معروف ترین یورپی کمپنیاں سعودی عرب کے مختلف ترقیاتی شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں جبکہ 25 ہزار کے قریب یورپی یونین کی شہری سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ یورپین کمپنیاں دھڑا دھڑ لائسنس لے رہی ہیں۔ ایک بہت بڑا سرمایہ یورپ سے سعودی عرب منتقل ہورہا ہے جس کے تعاقب میں دنیا بھر کی کمپنیاں اور ہنر مند افراد سعودی عرب کا رُخ کررہے ہیں۔

سعودی عرب کا وژن 2030 سٹریٹجک ترقیاتی فریم ورک ہے جس کا مقصد سعودی عرب کا تیل پر انحصار کم کرنا اور صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے، تفریح اور سیاحت جیسے عوامی خدمات کے شعبوں کو ترقی دینا ہے۔

Check Also

Apni Khabren Tolen

By Umar Khan Jozvi