Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Badal Raha Hai Saudia (1)

Badal Raha Hai Saudia (1)

بدل رہا ہے سعودیہ (1)

ہمیشہ پہلا تاثر ہی یاد رہ جاتا ہے۔ وہ دن گئے جب جدہ ایئرپورٹ پر لمبے سفید چوغوں میں ملبوس جوان شلوار قمیض والے مسافروں پر شور کرتے نظر آتے تھے یا انہیں لائنوں میں لگا آپس میں دیر تک گپ شپ کرتے رہتے تھے۔ جدہ کے جدید ایئرپورٹ پر اب آپ کو امیگریشن پر صرف خواتین ملیں گی جو شائستہ انگلش میں آپ سے سوال جواب کرکے منٹوں میں اینٹری ایگزٹ لگادیں گی۔ نئے سعودیہ کا یہ میرا پہلا تاثر ہے لیکن حیران کردینے والے مشاہدے یہاں نہیں رکتے بلکہ قیام سعودیہ میں ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کا یہ سب سے بڑا ملک رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے تین گُنا بڑا ہے۔ یہ سویا ہوا شیر اب جاگ پڑا ہے اور جس سپیڈ سے بھاگ رہا ہے تو آنے والے دس سالوں میں نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی جدید معیشت بن جائے گا بلکہ چین انڈیا جیسی معیشتیں اس سے خطرہ محسوس کریں گی۔ سیاسی اور مالی حالات سب برابر ہیں اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ سعودیہ کتنے وقت میں یہ جست طے کرتا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلیمان نے آتے ہی سعودی جوانوں کو حکومت کے وظیفے کی افیون بند کردی ہے اور انہیں ہنر سیکھنے پر لگایا ہے تاکہ وہ ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ تعلیمی پالیسی خصوصاً کالج یونیورسٹی سطح کی تعلیم کا ماڈل بالکل تبدیل کیا جارہا ہے اور جنرل مضامین کو نکال کر اپلائیڈ، ٹیکنیکل اور سائنسی مضامین کو پڑھایا جارہا ہے۔ نوجوان طبقہ وظیفہ بند ہونے پر خوش تو نہیں لیکن اس پالیسی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب سعودی نوجوان بھی ٹیکنیکل ٹریڈ کی جابز پر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں جن پر کبھی صرف برصغیر سے گئے کارکن ہی کام کرتے تھے جیسے سرویئر سپروائزر وغیرہ۔

پچھلے دس سالوں میں کئی لاکھ سعودی جوان دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے ٹیکنیکل، فنانشیئل اور سائنسی تعلیم حاصل کرکے آچکے ہیں جنہیں تلاش کر کرکے مختلف اداروں میں انتظامی اور پالیسی لیول کی پوزیشنوں پر لگایا گیا ہے۔ پالیسی، اسٹرٹیجی اور کیپیسٹی بلڈنگ پر زور ہے۔

خواتین کی تعلیم اور جابز پر بہت کام ہورہا ہے۔ ہوٹل انڈسٹری میں تمام استقبالیہ پر آپ کو لڑکیاں نظر آئیں گی۔ خواتین دکانیں چلا رہی ہوں گی اور آپ کو گاڑی ڈرائیو کرتی ہوئی بھی نظر آئیں گی۔

سعودیہ میں جتنے پل، سڑکیں، عمارتیں اور ادارے اگلے دس سال میں بننے جارہے ہیں اتنے شاید پوری دنیا میں نہ بن سکیں۔ مکہ اور مدینہ کا انفراسٹرکچر بہت تیزی سے تعمیر ہورہا ہے۔ آدھا جدہ شہر نئی تعمیر کے لئے گرایا جاچکا ہے اور یہ تعمیر اتنی بڑی ہوگی کہ 2025 تک تو صرف جدہ گرتا رہے گا پھر جاکر تعمیر شروع ہوسکے گی۔ نیوم پراجیکٹ تو خیر سب لوگ جانتے ہیں لیکن اس جیسے دو تین اور بھی جدید شہر تعمیر ہورہے ہیں۔ 2030 کی ورلڈ ایکسپو اور 2034 کا فیفا فیفا ورلڈ کپ بھی سعودیہ میں ہونے جارہا ہے۔

سکلڈ ورکرز کے لئے ویزا اب منٹوں کی بات ہے۔ نان سعودی بھی اب اپنے نام کے ساتھ کاروبار رجسٹر کرواسکتے ہیں کسی کفیل کی ضرورت نہیں۔ تیل کی آمدن کو اب دوسرے شعبوں جیسے معدنیات میں انویسٹ کیا جارہا ہے جس کا بہت پوٹنشئل ہے۔

معدنیات کے بعد دوسرا شعبہ ٹورازم کا ہے جو سارے کا سارا ان چُھوا پڑا ہے۔ مذہبی ٹورازم کے ساتھ ساتھ بحیرہ احمر کے بے حد صحت مند کورل ریف، ہِل اسٹیشنز اور لامتناہی صحرا سفاری سب کچھ موجود ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ تعمیر اور تبدیلی کے اتنے بڑے کام میں حکومتِ پاکستان، پاکستانی فرمز، تعمیراتی کمپنیاں، آئی ٹی انڈسٹری، اعلی تعلیم یافتہ پروفیشنلز، اسکلڈ ورکرز اور سروسز انڈسٹری اپنے آپ کو کیسے اور کتنی جلدی ہم آہنگ کرتی ہے اور اس سے کتنا فائدہ اُٹھانے کے قابل ہوتی ہیں؟

Check Also

Bhutto Ka Tara Maseeh

By Haider Javed Syed