Az Toronto, Maktoob (1)
اَز ٹورنٹو، مکتوب (1)
ہجرت کرنا ایک نہایت ہی مشکل قدم ہے اور اس کے اپنے فوائد و نقصانات ہیں۔ تاہم ہجرت کے عذاب کو بھگتنا فرسٹ جنریشن مائیگرینٹس کے لئے کئی گنا زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کینیڈا امیگریشن کروانے والے انجینیئر، ڈاکٹر، پی ایچ ڈی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کم ازکم دس سال کی تگ ودو کے بعد ڈھنگ سے زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس میں سے پہلے تین سال تو بالکل دیسی مزدوری کے ہوسکتے ہیں جیسے وزن اُٹھانے والے کام، جھاڑو پونچا یا ریسٹورنٹس پر کام، ٹیکسی چلانا وغیرہ۔ یہ کام سخت سردی، برف باری اور کئی مہینوں تک رہنے والے صفر ڈگری سے نیچے کے درجہ حرارت میں کتنے مشکل ہوں گے۔
بعض لوگ تو ان کاموں میں ایسے پھنستے ہیں کہ پچیس پچیس سال تک ٹیکسی چلا رہے ہوتے ہیں تاہم کچھ باہمت لوگ لوکل یونیورسٹیوں میں ماسٹر کرتے ہیں اپنی کوالیفیکیشن بڑھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ لوکل جاب مارکیٹ کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ پہلےکم آمدنی والی جابز اور پھر پروفیشنل جابز ملنا شروع ہوتی ہیں۔ پاکستانی انجینیئرز بیچلر کی ڈگری تو پھر بھی چل جاتی ہے لیکن کینیڈا ڈاکٹرز کی ایم بی بی ایس ڈگری کو نہیں مانتا کیونکہ وہاں میڈیکل کی ڈگری ماسٹر ڈگری ہوتی ہے اور یوں اکثر پاکستانی ڈاکٹرز کم تر جابز کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایک انجینیئر صاحب پاکستان میں ایک سرکاری ادارے کے ڈائریکٹر پروموٹ ہونے جا رہے تھے لیکن کینیڈا چلے آئے اور اب پانچ سال ہوگئے ہیں سیٹ نہیں ہورہے، جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو میاں بیوی دونوں پی ایچ ڈی ہیں اور پاکستان کے سرکاری اداروں میں 19 ویں گریڈ کے افسر تھے۔ سرکاری کالونی میں بہت بڑا گھر تھا اپنی کنوینس تھی۔ کینیڈا امیگریشن کروائی اور یہاں پہنچ کر سنگل فیملی ہاوس کی بیسمنٹ کے ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہوئے۔
میاں کو جھاڑو لگانے کی جاب ملی تو بیوی کو دکان پر ٹیلر کی۔ بچے الگ سے تنگ کہ اتنے عیاشی والے ماحول سے ایک ڈربے میں قید ہیں۔ اپنی ہمت اور کوشش سے میاں بیوی نے یہاں زندگی کا بائیس تئیس سال کا سفر تو چلا لیا، گھر، گاڑی بھی آگئی بچے پڑھ گئے لیکن کینیڈا آنے کے بعد انہیں اپنے شعبے میں دوبارہ کام کرنے کا موقع پھر کبھی نہیں ملا جس میں ان دونوں نے پی ایچ ڈی کی تھی۔ اب یہ الگ سے عذاب ہے کہ جن بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے دونوں نے ہجرت کا عذاب جھیلا تھا وہ بچے اب چھوڑ کر جانا شروع ہوگئے ہیں۔
تنہا بوڑھے لوگ اکثر مالز میں مخصوص بنچوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے جیسے دوسرے بوڑھوں سے گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک ایسی ہی تنہا انڈین بوڑھی نے میرے دوست کو بتایا کہ جب 52 برس کی تھی اور انڈیا میں کالج میں پڑھاتی تھی تو ایک دن اس کے بیٹے نے اسے بہت اصرار سے کینیڈا بلا لیا۔ وہ جاب، رشتے ناتے چھوڑ کر صرف اپنے بیٹے اور پوتے پوتیوں کی محبت میں کینیڈا شفٹ ہوگئی۔ اس کا بیٹا اور بہو دونوں سارا دن جاب پر ہوتے اور وہ پیچھے ان کے بچوں کو سنبھالتی اور یوں میاں بیوی کا ڈے کیئر کا خرچہ بھی بچتا۔
بچے بڑے ہوئے تو یونیورسٹیوں میں چلے گئے اور اس کا بیٹا اسے ٹورنٹو میں ایک فلیٹ میں چھوڑ کر خود شکاگو چلا گیا ہے اور کئی سال سے اس کے پاس نہیں آیا۔ اب وہ تنہا ہے۔ پچھلے پچیس سال میں اپنے وطن سے بھی رابطے ختم ہوچکے ہیں۔ ساری ساری رات جسم میں دردیں ہوتی ہیں لیکن گھر میں کوئی دوسرا نہیں۔ شکر ہے کہ ابھی تک وہ خود سے چل کر مال میں گپ شپ کے لئے آسکتی ہے ورنہ کتنا تکلیف دہ ہوتا۔
جاری ہے۔۔