Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Aam Saal Ki Khas Kahani

Aam Saal Ki Khas Kahani

عام سال کی خاص کہانی

یہ ایک عام سی کہانی ہے لیکن اس میں آنے والے موڑ نے پوری کہانی کو ہی بدل دیا ہے۔ یہ خاص ہوگئی ہے کیونکہ اسے سنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پچھلے پچیس سال سے پاکستان خصوصا بلوچستان کے ویرانوں میں اپنی روزی روٹی کی تلاش میں گھوم پھر رہے تھے۔ کئی تاریک راتوں میں ان ویرانوں کی اندھیری وسعت میں پتھریلے راستوں پر خوار ہوتے ہوئے سوچتے تھے کہ کبھی دنیا کو بھی خبر ہوگی کہ ہم یہاں کن حالات میں ہیں اور کیا کام کر رہے ہیں؟ یا پھر ان احساسات کو اپنے ساتھ ہی قبر میں لے جائیں گے کیا؟ 2021 کا سال ہمارے لئے ایک اور عام سال کی طرح شروع ہوا۔ اس میں اور کوئی خاص بات نہ تھی کہ سوائے اس کے کہ یہ ہماری پیشہ ورانہ زندگی کا سلور جوبلی اور طبعی زندگی کا گولڈن جوبلی سال تھا۔

پچھلے سال کرونا کی یلغار ہوئی تو فیس بک پر کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ میں فیس بک کے اربوں صارفین میں سےایک عام سا فیس بکی تھا۔ کرونا کے مایوس کن حالات میں بھی ان ویرانوں میں کام کرتی اپنی ٹیموں کے حوالے اپنے تاثرات فیس بک پر لکھنا شروع کئے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ شروع میں چند ایک لوگ اسے پڑھ لیتے۔ کچھ کمنٹ کر دیتے اور یوں بیس تیس لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچ جاتا۔ یہ فیس بک پر چند لوگوں تک اپنی ٹیم کی عزم ہمت کی داستان پہنچانے کا ایک چھوٹا سا انسانی خیال تھا کہ جس میں پتہ نہیں کب رحمانی مرضی شامل ہوگئی اور اس سال جولائی میں کرم کےمیڈل پوسٹ وائرل ہوگئی۔

یہ ناممکن حالات میں ممکن کر دکھانے والے بہادر لوگوں کی داستان تھی جس کی رسائی سینکڑوں ہزاروں لوگوں تک ہوگئی، جس کی شاید ہم نے بھول کر بھی خواہش نہیں کی ہوگی۔ لوگوں کی بے انتہا محبت اور پرخلوص دعائیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ مالک کی ذات نے شائد ہماری محنت کی لاج رکھ لی۔ ہمارا کوئی ایسا عمل پسند آیا کہ پچیس سال کی دشت نوردی پر بھاری پڑ گیا۔ وہ جو پتھروں کے اوپر گھنٹوں چلنے سے ہمارے جسموں میں ٹیسیں اُٹھتی تھیں سینکڑوں لوگ ان میں سے ایک ایک ٹیس کی کہانی سننے کو کان لگا کر بیٹھ گئے اور اگر سو ڈیموں کی کہانی میں ایک دن کا بھی ناغہ ہوا تو انباکس میسیجز کی یلغار ہوگئی۔ جن مہربان ہستیوں سے ملنا خواب تھا ان کی طرف ملاقات کے سندیسے آنا شروع ہوگئے۔ سو ڈیموں کی کہانی عزم و ہمت کا ایک استعارہ بن گئی۔

پتہ نہیں ناڑی ندی میں سیلابی ریلے میں اپنی گاڑی سمیت بہہ جانے والے لمحوں کے دوران مالک کے حضور مانگی جانے والی دعا قبول ہوگئی یا پھر دشت کے علاقے میں سینکڑوں کلومیٹروں سفر کرتی گھنٹوں سے لاپتہ ٹیموں سے رابطہ بحال ہونے تک کے بیتاب لمحوں کی بے قراری پر مالک کی ذات کو رحم آگیا۔ جو بھی ہے شاندار ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ لگن کبھی تھکتی نہیں۔ زندگی کے کتنے ہی ماہ و سال ہوں گے جو ہم نے ویرانوں میں ضائع ہونے کے خوف یا اپنی کوشش کے بے وقعت ہونے کے خیال سے گزارے ہوں گے کیونکہ ہمارا خیال ہوگا کہ کون سنتا ہے یا کون خیال کرتا ہو گا۔ ہمارا کام کوئی خاص نہیں۔ ہماری بھی کوئی کہانی ہے کیا۔ لیکن پتہ چلا کہ لوگ تو سننا چاہتے ہیں اور داد دینا چاہتے ہیں اپنے ان ہیروز کو جو ان کے لئے ویرانوں میں ہلکان ہورہے ہیں۔

یہ کہانی ہمارے پچھلے پچیس سال کئ محنت پر حاوی ہوگئی، کیونکہ یہ عمل کے قلم سے لکھی گئی تھی اور لوگوں کو سنانے کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس کہانی نے ہماری زندگی کو بدل ڈالا ہے۔ ہماری ٹیم اب ان ویرانوں میں گھومتی ہے تو ایک احساس ذمہ داری ان کے اندر ہوتا ہے۔ ان کا عام سا کام اب ایک جزبہ جنون بن گیا گیاہے۔ ہماری آواز ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ ہمارے لئے بطور طالب علم شروع ہونے والا سال معلم بننے پر ختم ہو رہا ہے۔ قاری سے شروع ہونے والے اب کچھ کچھ لکھاری محسوس ہوتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر پانی کی آواز بلند کرنے کا موقع ملنے لگا ہے اور ساتھ ہی عارف انیس اور قاسم علی شاہ صاحب جیسے اساتذہ کی تھپکی بھی اور آپ سب دوستوں کی دعائیں بھی۔

یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ ہم نے اپنی عام سی کہانی سنانے کی چھوٹی سی کوشش کی۔ تو قدردانو، کبھی یہ سوچ کر خاموش نہ بیٹھ جاؤ کہ کون سنتا ہے یا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یا اب بہت دیر ہوگئی ہے۔ یا اس میں کیا نیا ہے؟ دنیا تمہاری کہانی سننے کے لئے بے تاب ہے۔ زندگی کے شاندار سفر میں تمھارا ساتھ چاہے کتنا ہی عام سا اور کتنا ہی مختصر ہے مگر یہ اہم ہے۔ تم اپنے انداز میں خاص ہو۔ تمھارے حصے کی کہانی تم ہی سنا سکتے ہو۔ شائد نئے سال کی خاص کہانی تمہاری ہو۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz