Mqm Ka Naya Janam
ایم کیو ایم کا نیا جَنم
8 فروری 2024 کے الیکشن نَتائج کے بعد ایم کیو ایم ایک "وَکھّری ٹائپ" والی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ الیکشن ایم کیو ایم نے "بھائی" کے بغیر جیتا ہے، لیکن "بھائی" کے بغیر الیکشن جیتنا، اور پارٹی کو مستقل بنیادوں پر کامیابی سے چلانا، یہ دو الگ الگ معاملات ہیں۔
جہاں تک الیکشن جیتنے کا تعلق ہے، اس معاملے میں خود ایم کیو ایم بھی حیران و پریشان ہے، کہ کھایا نہ پیا، نہ گلاس ٹوٹا اور بارہ آنے بھی اپنی جیب میں، "بھائی" کے نام کے بغیر، اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے شور کے دوران ہی ایم کیو ایم شکریہ کراچی کا جلسہ بھی انجوائے کرچکی ہے۔
"بھائی" کے بغیر ملنے والا یہ مینڈیٹ نہ صرف کراچی والوں کے لئے بلکہ خود ایم کیو ایم لیڈر شپ کے لئے بھی سرپرائز ہے، لیکن ایم کیو ایم کیا اس نئے مینڈیٹ کو برقرار رکھ پائے گی یا نہیں، یہ بات سمجھنے کے لئے ایم کیو ایم کو ماضی سے آج تک کھنگالنا پڑیگا، تاکہ بات آسانی سے سمجھ آجائے۔
18 مارچ 1984 کو جب عظیم احمد طارق، سلیم شہزاد، طارق جاوید اور دوسرے ساتھیوں نے ایم کیو ایم کے نام سے نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا، تو خود اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ آگے چل کر یہ جماعت شہری سندھ کی واحد نمائندہ طاقت بن جائے گی۔
ایم کیو ایم نے اپنے آغاز میں محصورین بنگلہ دیش کی واپسی، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ، شہری سندھ کے علاقوں کی محرومیوں کے خاتمے اور تعلیمی، سیاسی، معاشی میدان میں اردو بولنے والوں کی موثر نمائندگی جیسے نعروں کو بنیاد بنایا، اور ایک طویل عرصے تک ان پُرکشش نعروں کی بنیاد پر شہری سندھ کی محبتیں، ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرتی رہی۔
15 اپریل 1985 کو مشہور بشریٰ زیدی ہلاکت کیس نے گویا اس جماعت کی مقبولیت کی اسپیڈ کو پانچواں گئیر لگادیا، اِسی اَلم ناک حادثے کے بعد کراچی میں لسانی فسادات کا آغاز ہوا۔ مہاجروں کے احساسِ قومیت کو اُبھارا گیا، اور پختون ٹرانسپورٹروں کے خلاف احتجاج کیا گیا، اور چند علاقوں کی ایم کیو ایم کا ڈنکا پورے کراچی۔ حیدرآباد، نواب شاہ اور میر پور خاص تک بجنے لگا۔
اس حادثے نے ایم کیو ایم کے لئے وہی کام کیا، جو غلطی سے کسی 16 F جہاز کا آئل کسی کار کے انجن میں ڈال دیا جائے، تو وہ چلنے کے بجائے اُڑنے کا کام کرنے لگتی ہے، یہی اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ ہوا۔
اس اَلم ناک واقعے کے بعد پہلے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومیت کی بنیاد پر بھرپور حصہ لیا، اور شہری سندھ میں شاندار کامیابیاں سمیٹتے ہوئے قومی کی 12 اور صوبائی کی 23 نسشتیں جیت کر شہری سندھ کی نمائندہ جماعت کی حیثیت اختیار کرلی۔ اپنے اس پہلے ہی ہَلّے میں ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کا کراچی بھر سے صفایا کردیا۔
اس پہلے الیکشن سے لے کر 2015 تک کے ہر بلدیاتی، قومی اور صوبائی الیکشن میں ایم کیو ایم بلاشرکت غیرے کراچی میں راج کرتی رہی، (لیکن تین دہائیوں پر محیط اس راج میں کئی واقعات ایسے ہو گزرے، جو ایم کیو ایم کے گلے کا ڈھول بن چکے ہیں)۔ ان تین دہائیوں میں ایم کیو ایم کے راج کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ اس دور کی ایم کیو ایم اتنی طاقتور تھی کہ کسی بھی حادثے یا واقعے کے ردعمل میں ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حَب چند گھنٹوں کے اندر اندر بند کرادیا جاتا تھا۔
1991 میں شہری سندھ کی اس مقبول جماعت میں تقسیم کا عمل شروع ہوا، اور "بھائی" کے قریب ترین ساتھیوں عامر خان، آفاق احمد، بدر اقبال اور منصور چاچا وغیرہ نے پارٹی سے الگ ہو کر ایک نیا دھڑا ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے بنا لیا، اس گروپ کے حامی یاں تو شہر سے باہر چلے گئے یا روپوش ہوگئے۔ ان دنوں کراچی کے مختلف علاقوں میں"جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے" اور "غداروں کا داخلہ بند ہے"، جیسے بینر لگ گئے۔
یوں پہلی بار ایک ساتھ لڑنے والے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے، مخالفین کو اغوا اور قتل کیا جانے لگا، بوری بند لاشوں کا سلسلہ شروع ہوا، اور اس شہر کے لوگوں نے پہلی بار بوریوں سے دال چاول کے بجائے لاشیں نکلتے دیکھیں، زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈِرل مشین سے سوراخ، کَھمبوں سے لٹکی لاشیں اور اُن کے ٹکڑے، انسانی جسم کو آری، ہتھوڑے اور چَھینی سے کاٹنا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونکنا، گلے کاٹنا غرض انسانی حُرمت کی بد ترین پامالی نے اِس شہر کے متعلق معتبر رائے کو مَٹی میں مِلا دیا، اور پڑھے لکھے تہذیب یافتہ شہر پر دہشت گرد کا ٹَھپّہ لگتا چلا گیا، یاد رہے کہ خونریزی کے ہر واقعے کے بعد جائے واردات پر ایک پرچہ ملتا تھا، جس میں ایک جیسی ہی تحریر ہوتی تھی "مُخبری کا انجام"۔
لسانی اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کا ایک دوسرے پر شک کا عالم یہ تھا کہ سیاسی تنظیموں کے کارکنان ایک دوسرے سے گفتگو کرنے میں احتیاط کرنے لگے تھے، یونٹ اور سیکٹر کے ذریعے علاقوں کو کنٹرول کرنے کی سیاست شروع ہوگئی، شہر میں اسلحے اور مسلح گروہوں کی حکمرانی تھی، ریاست کی عمل داری تقریباً ختم ہوچکی تھی، پورا شہر یرغمال بن چکا تھا، ایم کیو ایم اور حقیقی کے مسلح تصادم میں سینکڑوں لوگ مارے جاچکے تھے۔ دونوں گروپ اپنے کارکنان کے قتل کا الزام ایک دوسرے پر ڈالتے تھے۔ اُنہی دنوں کراچی کے مختلف علاقوں میں ٹارچر سیل اور خُفیہ اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے تک شہری سندھ کی اس مقبول جماعت کے بطن سے قریباً پانچ گروپ پیدا ہوچکے تھے، جس میں پہلی آفاق بھائی کی حقیقی، دوسری خالد مقبول بھائی کی ایم کیو ایم پاکستان، تیسری فاروق ستار بھائی کی سربراہی میں ایم کیو ایم بحالی، چوتھی مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی اور پانچویں خود بڑے "بھائی جان" کی ایم کیو ایم لندن۔
12 جنوری 2023 کو ایم کیو ایم کے تمام دھڑے آپس میں ضم ہوگئے، لیکن "بڑے بھائی" کے بغیر۔
وہ جس طرح دنیا کی ہر ڈکشنری کو آپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، اسی طرح پرانی ڈکشنری میں بھرم بازی، بھتہ خوری، احتجاج، ہڑتال، ٹارچر سیل، بوری بند، اسلحہ بازی، ٹی ٹی کلچر، چندے زکوٰۃ اور فطرانے کی پرچیاں جیسے الفاظ موجود ہوتے تھے، لیکن آج کے دور کی ڈکشنری میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، فیس بک، یوٹیوب، چٹ چیٹ، دوستیاں اور آزادی اظہار رائے جیسے الفاظ شامل ہوچکے ہیں۔ لفظوں کی اس تبدیلی کو اہل علم و ادب کے نمائندے اب بھی سمجھ نہ پائے تو پھر، داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
بہرحال گیند ایم کیو ایم کے کورٹ میں موجود ہے، اور امتحان شروع ہوچکا ہے۔