Mochi Da Puttar
موچی دا پُتر
نوجوان نے زور سے دفتر کا دروازہ کھولا، اور آہستہ آہستہ چَلتا ہُوا دفتر کے اندر آیا، اس کی چال میں عجیب سی مایوسی تھی۔
"لیکن سَر کیا میں اپنی مرضی سے موچی کے گھر پیدا ہوا تھا"، نوجوان نے کرسی پر بیٹھتے ہی لَاوا اُگلنا شروع کر دیا۔
"اور کیا موچی کا کام کرنا کیا جُرم ہے؟" پھر مجھے کیوں بار بار موچی دا پُتر، موچی دا پُتر کہہ کہہ کر پکارا جاتا ہے، کیوں میری ڈگری، قابلیت، تعلیم، صلاحیت کسی کو نظر نہیں آتی، کیوں کالج سے لیا گیا میرا گولڈ میڈل کسی کو یاد نہیں رہتا، اگر یاد رہتا ہے تو صرف موچی دا پُتر، نوجوان کا غُصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، وہ مُسلسل اپنے دل و دماغ کی آگ کو باہر نکال رہا تھا، یہ آگ اسکے پورے جسم کو آتش فشاں بنا چکی تھی، لفظ لاوا بَن بَن کر اسکی زبان سے نکل رہے تھے۔
میں نے اسکی شدید کیفیت دیکھی، اپنی کرسی سے اُٹھا، گلاس میں پانی ڈالا اور گلاس کے نِیچے ہاتھ رکھ کر پیش کرنے کے انداز میں اُسکی طرف بڑھایا، "پانی پی لو"، میں نے آہستگی سے کہا، اس نے چند لَمحے میری طرف دیکھا، میں نے دونوں آنکھیں بند کر کے اشارہ کیا، اور اس نے پانی کا گلاس غَٹا غَٹ اپنے اندر کی آگ پر پھینک دیا۔ اس نے اپنی بات دوبارہ شروع کرنا چاہی، میں نے انگلی مُنہ پر رکھ کر اشارے سے اسے تھوڑی دیر خاموش رہنے کا کہا، وہ چُپ ہوگیا، اور میز پر پڑے پیپر ویٹ سے کھیلنے لگا۔
دیکھو دنیا بھر میں ایسے لاتعداد لوگ گُزرے ہیں، جو انتہائی غریب گھروں میں پیدا ہوئے، ان کے باپ بھی کسان، موچی، درزی، چھوٹے دوکان دار، سبزی فروش تھے، انتہائی کامیاب لوگ بھی گاؤں دیہات سے تعلق رکھتے تھے، انہیں شہری سہولتیں میسر نہیں تھیں، لیکن انہوں نے کبھی ان رُکاوٹوں کے سامنے ہار نہیں مانی، ان کے ماں باپ غریب بھی تھے، تَنگ دَست بھی، لیکن آگے بڑھنے کی لگن، اور جستجو کی آگ نے ان کو آگے بڑھنے کی روشنی عطا کی۔
انہیں بھی معاشرے نے درزی کا بیٹا، لوہار، کسان، سبزی فروش اور نہ جانے کِن کِن ناموں سے پکارا تھا، لیکن انہوں نے اپنی طرف آنے والے ہر پتھر کو ظرف، حوصلے اور صبر کی ڈھال پر روکا، کسی غلط بات کہنے والے سے کبھی نہیں اُلجھے، صرف اور صرف اپنے گول، مِشن اور مَقصد پر نظر رکھی، ہر گُزرنے والا لَمحہ انہیں اپنے مقصد کی یاد دلاتا، ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اپنے مقصد کی طرف بڑھتے رہے۔
دنیا کے امیر ترین اور مشہور ترین لوگ غربت کی چَکی میں پِس کر ترقی کی منزل پر پہنچے، میں تمہیں صرف دو چار واقعات سنا دوں، کینیڈین ارب پتی گلوکارہ شانیہ ٹوئن اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں گھر کے کرائے اور بِجلی کے بِل کی تاریخ کو صرف دیکھ کر ہی ڈر جاتی تھی، وہ کہتی ہے کہ کھانا خریدنے کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کبھی پورا پورا دن کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا، امریکن ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے شانیہ نے کہا، کہ میں اپنے بُرے دنوں کے بارے میں سب کچھ بتا سکتی ہوں، لیکن بھوکے پیٹ کی گڑگڑاہٹ کو میں لفظوں میں کبھی بیان نہیں کر سکتی۔
ٹینس کے چیمپئین مشہور ارب پتی ٹینس پلئیر نووک ڈجوک اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، کہ ہمارا بچپن دو جنگوں کو دیکھتے گزرا، اُس وقت معیشت کا سوچنا تو دُور کی بات، روز دودھ اور بریڈ کے لئے لمبی لائنوں میں لگنا پڑتا تھا، اُس وقت اصل مسئلہ صرف جان بچانا تھا۔
امریکی اداکارہ اور ٹی وی پروڈوسر سارہ پارکر اپنے مشکل دنوں کو یاد کرتے بتاتی ہیں، کہ آٹھ بہن بھائیوں کا ساتھ، ان کے کپڑے دھونا، انہیں سنبھالنا اور کئی دفعہ بجلی کے بغیر پورا پورا دن کام کرنا، ہم لوگ اتنے غریب تھے کہ سالگرہ کے دن منانا تو دور کی بات، کرسمس جیسا دن بھی منانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے، بھیگی آنکھوں سے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں سارہ نے اُن دنوں کو اپنی زندگی کے مشکل ترین دن قرار دیا۔
لیکن سر وہ تو یورپ یا امریکہ کی مثالیں ہیں، نوجوان نے کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
چلو اپنے برصغیر کی بات کر لیتے ہیں، انڈیا کے دوسرے وزیراعظم اور مشہور سیاستدان لال بہادر شاستری جنہیں دنیا شاستری جی کے نام سے یاد کرتی ہے، کلرک کے بیٹے تھے، چرن سنگھ انڈیا کے پانچویں وزیراعظم کسان کے بیٹے، حالیہ صدر انڈیا رام ناتھ سنگھ کے والد کی گاؤں میں چھوٹی سی کریانے کی دوکان، مانک سرکار آسام کے وزیراعلیٰ درزی کے بیٹے، چندر شیکھر آٹھویں بھارتی وزیراعظم ایک چھوٹے کسان کے بیٹے، مشہور بھارتی سیاستدان لالو پرشاد یادیو دودھ والے کے بیٹے، اور پھر سب سے بڑھکر آج کے پردھان منتری ہندوستان مودی جی جن کے بارے میں اکثر لوگ جانتے ہیں، کہ وہ بچپن میں چائے کے کھوکھے پر کام کرتے تھے۔
لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے والد گَلی گَلی سبزی بیچتے تھے، اِن سب سے ہمارے لاکھ اختلاف، لیکن ان سب نے اپنی غربت، غریب خاندان سے تعلق، معاشرے کے پِسے ہوئے طبقوں میں پیدا ہونے کے باوجود ہمت، مُستقل مزاجی، محنت اور مقصد سے محبت کی لگن نے انہیں کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں کا رول ماڈل بنا دیا، لوگ اِن کے ہاتھ چومتے، اِن کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے اور اِن کی تصویریں اپنے گھروں اور دفتروں میں بڑی عقیدت اور مَان سے لگاتے ہیں۔
یاد رکھو، اگر یہ لوگ بھی لوگوں کے چھوٹے چھوٹے جملوں، فقروں، اور بکواس کے تیروں سے اپنے آپ کو صبر کی ڈھال سے نہ بچاتے تو کبھی بھی زندگی کے سفر میں کامیاب نہ ہوتے، بلکہ ہر کوئی کہیں کلرک، موچی، درزی، کسان کا کام کر رہا ہوتا ہے، ان لوگوں نے کامیاب ترین زندگی کے بعد بھی کبھی اپنا ماضی، کسی سے نہیں چھپایا، بلکہ ہمیشہ اپنے ماضی اور اپنی فیملی پر فخر کیا، کامیاب ہونے کے بعد اپنی پرانی ہر چیز کو فخریہ پیش کیا اور کبھی بھی اپنے ماضی سے شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔
آج بھی، حتیٰ کہ اس وقت بھی دنیا بھر میں بہت سارے لوگ، خاندان حالات کی بَھٹی میں پَک رہے ہیں، لیکن ہر خاندان میں ایک یا ایک سے زیادہ لڑکا یا لڑکی اگلے کچھ سالوں بعد کامیابی کا ستارہ بن کر چمکے گا، اسکے بھی انٹرویو ہونگے، اس پر بھی فلمیں اور پروگرام بنیں گے، دنیا بھر کی یونیورسٹیاں ان پر ریسرچ کر رہی ہونگی، اور دنیا بھر کے ادارے ان کے لیکچرز ارینج کر رہے ہونگے اور آج ایک روٹی کے پیسے نہ ہونے والوں کو کل لوگ کئی کئی ڈالر کا ٹکٹ خرید کر سُن رہے ہونگے۔
یہی ماضی، حال اور مستقبل اور ہر دور کا اصول ہے، وقت کے اس پہیے میں یہی خوبی ہے کہ یہ رُکتا نہیں ہے، بلکہ مسلسل چلتا رہتا ہے، جو لوگ اس پہیے کے چلنے کی طاقت کو محسوس کر لیتے ہیں، وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتے، انہیں یقین ہوتا ہے کہ پہیے کا ایک رُخ اگر آج نیچے ہے تو یہ کل اوپر بھی جائیگا، اور وقت کے پہیے کی اونچ نیچ کے اس سسٹم کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، کیونکہ دنیا والوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی زبان کی سنگینوں سے لوگوں کو لہولہان کرتے پھریں، لیکن وقت کے پہیے کی رفتار پر ان کا رَتی بھر اختیار نہیں۔
"لیکن سَر اَب میرے لئے کیا حُکم ہے"، نوجوان کے اندر کی آگ کی آخری چنگاریاں بھی بُجھنے کے نزدیک تھیں۔
"دیکھو، دنیا میں ہر شخص کا حِصّہ موجود ہے، اگر تُم اپنے حِصّے کا حِصّہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی ڈھال کو مضبوط کرو، جو تمہاری طرف آنے والے ہر پتھر اور تِیر کو بے اثر کر دے، جو کبھی تمہیں چوٹ لگنا تو دور کی بات چوٹ کا احساس تک نہ ہونے دے۔
"وہ ڈھال کہاں سے ملے گی؟" نوجوان نے آخری سوال کیا، "اس ڈھال کے اَجزائے ترکیبی تمہارے اندر موجود ہیں، ظرف، حوصلے اور صبر کی ڈھال"۔
نوجان اُٹھا، مجھ سے ہاتھ ملایا، اور کمرے سے نکل گیا، اُسکی چال میں عجیب سی خود اعتمادی تھی۔