Mashraqi Aur Maghrabi Dono Kisan Pareshan
مشرقی اور مغربی دونوں کسان پریشان
ہندوستانی کرناٹکا سے ابھی ایک دو روز پرانی خبر ہے، کہ کرناٹکا کے گنّے کے کاشت کار نیشنل ہائی وے بلاک کیے بیٹھے ہیں۔ مطالبہ کوئی لمبا چوڑا نہیں، صرف گَنّے کی سپورٹ پرائس 2020 اور 2023 ابھی تک سرکار طے نہیں کر سکی۔ ہو سکتا ہے سپورٹ پرائس کا مسئلہ، شہری بابوؤں کے نزدیک اتنا اہم نہ ہو، لیکن اس کی ویلیو سردی میں سڑکوں پر بیٹھے کسان سے کوئی پوچھے۔ یہ صرف کرناٹکا کے کسانوں کا مسئلہ نہیں، دنیا بھر کے کسانوں کے سیدھے سادے آسان مطالبات، سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والوں کو سمجھ میں نہیں آ سکتے۔
اس گزرتے سال اور گزرے سال میں دنیا بھر کے کسانوں کی حالت زار اور مطالبات پر تحقیق کیا کہتی ہے، آئیں دیکھتے ہیں۔
"مائی ڈئیر فرانس، کیا تمہیں اپنے کسانوں کی ضرورت ہے؟" یہ نعرہ اپریل 2021 کو اچانک فرنچ کِسانوں کی طرف سے سڑکوں پر احتجاجی ٹریکٹروں کے شور کے ساتھ گونجا، اس نعرے کی گونج نہ صرف فرانس کے طول و عرض بلکہ پورے یورپ میں سُنی گئی۔ فرانسیسی کسانوں کے مطالبات بھی وہی تھے، جو دنیا بھر کے دوسرے کسانوں کے ہوتے ہیں، یعنی ہمیں اپنی اجناس کے اتنے پیسے دئیے جائیں جس سے ہم روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھ سکیں، وگرنہ فرانس حکومت اس احتجاج کو "فرسٹ وارننگ" سمجھے۔
وہ تو بَھلا ہو فرنچ وزیر زراعت جولین مینڈی کا جنہوں نے احتجاج کی حِدّت کو واقعی "فرسٹ وارننگ" سمجھا، اور فوراً اپنے ٹویٹر پر دو ٹویٹ کر دئیے، پہلا "اجناس کی صحیح قیمت کے حق کی حوصلہ افزائی کی جائیگی"، دوسرا "اگر مضبوط زراعت نہ ہو تو ملک مضبوط نہیں رہ سکتا"، ان کی اس ٹوئٹیانہ کوشش اور شفقت کو کسان تنظیموں نے محسوس کیا اور مذاکراتی عمل شروع ہوا، اور کچھ لو، کچھ دو کے اصولوں سے ہوتا ہوا کامیاب ہوا، کسان اور ان کے ٹریکٹر خوشی خوشی واپس اپنے گھروں کو چل دیے۔
اسی سال ہالینڈ کے ایک گاؤں "چوئی" میں ایک روز ہزاروں کسان اور فارمرز اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں کے ساتھ جمع ہو گئے، بعض فارمرز اپنے ساتھ گائے، بچھڑے بھی لے آئے تھے، اس دہقانی احتجاج میں کسانوں نے زور زور سے ٹریکٹروں کے ہارن بجا بجا کر پوری دنیا کے میڈیا تک اپنی آواز پہنچا دی۔ ڈَچ فارمرز کا معاملہ فرنچ کسانوں سے مختلف تھا، ہالینڈ حکومت کو اچانک ایک رپورٹ کے ذریعے انکشاف ہوا، کہ ملک میں نائٹروجن رساؤ لیول عالمی طے شدہ پیمانے سے اوپر جا رہا ہے، اور اس پھیلاؤ یا رساؤ میں ڈَچ فارمرز 41 فیصد کے ساتھ بڑے ساجھے دار ہیں۔
کسان تنظیموں نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دلیل دی کہ ہالینڈ دنیا بھر سے زیادہ ہرے بھرے اور سر سبز کھیت کھلیان رکھتا ہے۔ اس دلیل میں ایک اور ثبوت شامل کرتے ہوئے ڈَچ کسان تنظیموں کا کہنا تھا، کہ ہم ماحول دوست اور مویشی دوست انتظامات کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ فائیو ممالک میں شامل ہیں۔ ان فارمرز نے دُہائی دی کہ اگر روایتی خاندانی فارمنگ کو ختم کرنے یا روکنے کی کوشش کی گئی تو ہالینڈ کا پورا زراعتی کلچر تباہ ہو جائیگا، یاد رہے کہ ہالینڈ زرعی اور ڈیری مصنوعات کی برآمد میں پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
ڈَچ کارپوریٹ سیکٹر اور کسانوں کے درمیان کھینچم تانی میں اب تک گیارہ ہزار فارم بند، اور تقریباً سترہ ہزار سے کچھ اوپر پروڈکشن میں کمی کر چکے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر نے حکومتی کانوں میں یہ سروے انڈیلا، کہ ان فارموں کی وجہ سے ڈَچ زرعی زمین، مٹی، پانی اور پودوں تک میں اسکے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں، جبکہ زرعی و فارمی ایسوسی ایشنوں نے مشترکہ طور پر اس سروے کو پراپیگینڈا قرار دیکر مسترد کر دیا ہے۔ ابھی تک یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا ہے، فرنچ فارمرز ہر صبح اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی حَسّرت اور بے یقینی کی نگاہیں ڈالتے رہتے ہیں۔
چلیں یہ بات تو ہوگئی یورپ کی، اپنے پڑوس ہندوستان کا عظیم الشان اور تاریخی کسان مارچ تو ابھی پچھلے سال کی بات ہے، جب پنجاب اور ہریانہ صوبوں کے ہزاروں کسان اپنے اہل و عیال ٹریکٹر ٹرالیوں میں بٹھائے سڑکوں پر آنے کو مجبور ہو گئے، وجہ بنی مودی سرکار کا پاس کیا گیا ایک بِل، جسے کسان تنظیموں نے تو "کِسان مُکاؤ بِل" کا نام دیا، جبکہ دِلّی سرکار اسے "فارم ایکٹ" کا لبادہ پہناتی رہی۔
پہلے پہل تو کسان تنظیمیں سمجھیں، کہ شاید دِلّی سرکار ہمارے احتجاج کو ہلکا نہیں لے گی، لیکن ہزاروں میل دور دِلّی سرکار نے اس احتجاجی تحریک کو شروع میں واقعی ہلکا لیا۔ لیکن جب چھ ریاستی اسمبلیوں کیرالہ، پنجاب، چھتیس گڑھ، راجستھان، ویسٹ بنگال اور خود دہلی اسمبلی نے اس بِل کے خلاف قرار دادیں منظور کر لیں، بلکہ تین ریاستی اسمبلیوں پنجاب، چھتیس گڑھ اور راجستھان نے اس بِل کے خلاف باقاعدہ قوانین بنائے، اور منظور کر لیا تو دِلّی سرکار کے کانوں پر جُوں نے باقاعدہ رینگنا شروع کر دیا۔
پھر جب کسانوں کے احتجاج میں اپوزیشن پارٹیاں اور سول سوسائٹی شامل ہوئی اور کسانوں نے ٹریکٹر ٹرالیوں سمیت دِلّی کی طرف منہ کر لیا، اور احتجاج دِلّی کے تمام خارجی و داخلی راستوں پر بیٹھ گیا، تو دِلّی سرکار کے تو خیر طوطے اڑ گئے، لیکن ساتھ ساتھ ہندوستانی سپریم کورٹ نے بھی انگڑائی لی، اور حکومت کو سرزنش کرتے ہوئے بات چیت شروع کرنے کا کہا، کسان تنظیموں اور سرکار میں بات چیت کے تقریباً گیارہ دور ہوئے، اور بلآخر 19 نومبر 2021 کو سرکار اس بِلّ کو واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔
حکومت نے ایم ایس سوامی ناتھن کی سربراہی میں نیشنل کمیشن برائے کسان تشکیل دیا، جس نے شب و روز ایک کر کے سفارشات مرتب کیں، جِسے 21 مارچ 2022 کو عوام الناس کے لئے بھی ریلیز کر دیا گیا۔ اس رپورٹ میں کئی کسانی مطالبات تو منظور ہو گئے، لیکن اجناس کی سپورٹ پرائس کا معاملہ پھر بھی لٹکے کا لٹکا رہ گیا، آخر کارپوریٹ سیکٹر اتنا ہلکا بھی نہیں۔
اب بات کرتے ہیں وطن عزیز کے بے یارو مددگار کسانوں کی، جو تقریباً ہر سال احتجاجی مجمع لیکر اسلام آباد یا لاہور کی طرف مارچ کرتے ہیں، تبدیلی دور میں بھی کسان مارچ نکلا، لیکن پولیس نے شدید آنسو گیس اور کیمیکل ملے پانی سے مارچ کی ٹھیک ٹھاک دھلائی کر دی، پولیس اور کسانوں کی آپا دھاپی میں پاکستان کسان اتحاد کا فنانس سیکریٹری ملک اشفاق لنگڑیال شدید زخمی ہوگیا، اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
لنگڑیال کی شہادت کے بعد کسان اتحاد مظاہرین اٹھے، اور یتیموں کی طرح اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، مذاکراتی عمل کا شروع ہونا تو دور کی بات مُدافعاتی عمل بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ دنیا بھر کے کسانوں کے مطالبات آخر ہیں کیا؟ تحقیق کاروں نے سر کھپا کر جو مطالبے نکالے وہ گاؤں کے کھانوں کی طرح سادہ، آسان اور سستے نکلے، اجناس کی مناسب سپورٹ پرائس جس سے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رہے۔
بجلی کے بل کی تلوار کی کاٹ کو کُند کرنا، کھاد اور بیج تک بروقت رسائی، تیل، ڈیزل پر گرین سبسڈی، ایشیائی ممالک میں کھیت سے منڈی تک سڑکوں (موٹروے کی ڈیمانڈ نہیں) صرف ہلکی پھلکی سڑکیں جن پر کم از کم ٹریکٹر ٹرالیاں گِھسٹ گِھسٹا پر منڈی جا پہنچیں، اور سب سے ضروری بلا سود قرضے، یہ بس وہ پانچ یا چھ سیدھے، سچے اور آسان مطالبات جو کارپوریٹ کلچر کو تو خیر بالکل سمجھ نہیں آ سکتے۔ ہاں عوامی حکومتوں کے لئے یہ پتھر اُٹھانا اور چُومنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
ابھی پچھلے مہینے اتحادی حکومت کے متحرک وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بھی کسان پیکج کا اعلان کیا ہے، جسے تاریخی بھی کہا جا رہا ہے، لیکن جنابِ مَن، کسان کی ضروریات اور مشکلات آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہیں، اٹھارہ سو ارب کا کسان پیکج کسانوں کے زخموں پر مرہم کا کام تو کرے گا، لیکن زخموں کو مستقل ختم نہ کر سکے گا، ابھی سفر بہت، منزل دور اور رفتار انتہائی سُست ہے۔
پہلے دور میں کِسان کا بَچّہ لَسّی، دُودھ، مکئی کی روٹی، ساگ اور اچار پر پَل جاتا تھا، لیکن انٹرنیٹ نے اسے بھی پِزا، برگر، اسپیگٹی کا پتہ سمجھا دیا ہے، اگر کسان کے بچے کو اسکے مطلب کی چیزیں نہ ملیں تو ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد کراچی، لاہور، اسلام آباد کے امیروں کے پاس جیبیں تو روپے پیسوں سے بھری ہو، لیکن برگر، پزا اور اسپیگٹی بنانے کے لئے اناج میسر نہ ہو، اس وقت سے ڈریں۔