Malak Ul Maut Ke Sathi
ملک الموت کے ساتھی
آج سے تین دن پہلے ایف آئی اے نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ساتھ مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے کراچی کے علاقے ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک دوکان نما گودام پر چھاپہ مار کر جعلی دواؤں، ویکسینز اور انجیکشنز کا بھاری ذخیرہ پکڑا، گودام میں جعلی شربت، انجیکشن اور گولیاں مشہور کمپنی کی پیکنگ میں ڈالی جا رہی تھیں۔
تین دن پہلے کے اس واقعے کے ساتھ کچھ پرانے واقعات بھی یاد کر لیں۔
پیپلز پارٹی کے مشہور وزیر داخلہ رحمان ملک نے جب سال 2010 میں قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر انکشاف کیا، کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی دوائیوں میں پینتالیس سے پچاس فیصد تک جعلی اور مُضرِ صحت ہیں، تو چند لمحے کے لئے ارکان قومی اسمبلی ہَکّا بَکّا ہو گئے، ذرا دیر بعد اوسان بحال ہوئے، تو زیادہ تر نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، اور اپنی اپنی دوائیں نکال کر الٹ پلٹ کر کے چیک کرنا شروع کر دیں۔
لیکن وہ جعل ساز ہی کیا، جسکی "پراڈکٹ" دیکھتے ہی جعلی محسوس ہونے لگے، یعنی جعل سازی میں کامیاب نہ دکھنے والا بھی جعلی کہلاتا ہے، اور اپنی برادری کے لئے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ اس رحمانی انکشاف سے بھی کئی سال پہلے گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین کو دی گئی، دوائیوں میں بھی بعض دوائیں جعلی قرار پائیں، یعنی جعل سازوں کی مہارت دیکھیں، کہ صوبے کے سب سے بڑے عہدے دار کی میز پر اپنی "پراڈکٹ" کامیابی سے پہنچا دی، یہ واقعہ آج سے تقریباً تین دہائی پہلے کا ہے۔
سال 2012 میں بھی دل کے مریضوں کے دل کی دھڑکنیں اچانک بند ہونا شروع ہوگئیں، جب پے در پے واقعات رپورٹ ہونے لگے، تو انتظامیہ حرکت میں آئی، مارکیٹ سے دل کے امراض میں استعمال ہونے والی دوائیں اٹھائیں، چیک کرائیں، تو اکثر جعلی نکلیں، انتظامی مشِینری کے کسی نتیجے پر پہنچتے پہنچتے ایک سو بیس سے کچھ زیادہ دل کے مریض دنیا کو خدا حافظ کہہ چکے تھے۔
2015 کے گرم اگست میں معروف امریکی نیوز چینل سی این این نے پاکستانی جعلی دواؤں بارے گرما گرم رپورٹ پیش کی، تو دنیا بھر میں جعلی دواؤں اور رپورٹ دونوں کی گرمی کی تپش محسوس کی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی مارکیٹ میں سپلائی ہونے والی اکثر دوائیں جعلی اور مُضرِ صحت ہیں۔ رپورٹ میں دواؤں کو پیک کرتے ہوئے ویڈیو بھی شامل کی گئی، جعلی دوائیں پیک کرنے والے بڑی مہارت سے گولیاں، کیپسول، انجیکشن اور سیرپ پیک کر کر کے مشہور کمپنیوں کے ڈبوں میں بھر بھر کے آرڈرز پورے کرنے میں مصروف تھے۔
سیرپ ایک ہی ڈرم میں اکٹھا تیار کرکے الگ الگ رنگ ڈال کر الگ الگ کمپنیوں کی پیکنگ میں ڈالا جا رہا تھا۔ کیپسول اور گولیوں میں چونا، کیلشئیم کاربونیٹ اور بلیک بورڈ پر لکھنے والا چاک شامل کیا جا رہا تھا۔ ان اجزائے ترکیبی کا انکشاف اس سے پہلے جون کلارک نامی ایک امریکی بھی کر چکے تھے، جون کے مطابق جعلی دواؤں میں زرعی کیڑے مار دوائیاں، چوہے مار زہر، اینٹوں کا بُرادہ اور پینٹ شامل کیا جاتا ہے۔ جون کلارک پہلے اسسٹنٹ سیکرٹری، یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ ایجنسی اور بعد ازاں مشہور دوائی ساز کمپنی فائزر کے چیف سکیورٹی آفیسر رہے۔ جون کے مطابق جعلی دوائیاں سیدھا سیدھا زہر ہے۔ جو بدفطرت لوگ زیادہ منافع کی ہوس میں مریضوں کو کھلا رہے ہیں۔
گزشتہ دسمبر میں ہیلتھ اتھارٹی کے ذمہ داران نے مارکیٹ سے آدھا درجن سے کچھ زیادہ دوائیوں کے نمونے حاصل کئے، ٹیسٹ کے لئے لیبارٹری پہنچے، سب کی سب جعلی اور مُضرِ صحت قرار پائیں، ان دوائیوں میں ذہنی سُکون کے لئے لینے والی دوائیاں بھی شامل تھیں، گویا ذہنی سکون کے متلاشی ان دوائیوں کے بعد چُپ چاپ ابدی سکون حاصل کر رہے تھے۔
ایک اور کاروائی میں ڈریپ اور سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے مشترکہ طور پر مارکیٹ سے نمونے جمع کئے، ان کی ٹیسٹنگ کروائی گئی، تو مشہور برانڈ کی دو مارکیٹ بیسٹ سیلر دوائیاں جعلی قرار پائیں، دونوں دوائیاں ذہنی تسکین اور سکون کے لئے استعمال ہوتی ہیں، اور مارکیٹ میں ٹاپ سیلر ہیں، دونوں جعلی دوائیاں اب تک نہ جانے کتنے ذہنی تسکین کے خواہش مند پھانک چکے ہیں۔ ڈریپ اور ڈی ٹی ایل سندھ کی ایک اور مشترکہ کاروائی میں کراچی اور حیدرآباد سے اٹھارہ جان بچانے والی دواؤں کے سیمپلز جمع کئے گئے، سب کی سب جعلی اور مُضرِ صحت قرار پائیں، گویا جان بچانے والی دوائیں جان لینے والی دوائیں بن چکی ہیں۔
سندھ لیبارٹری کے چیف ایگزیکٹیو عدنان رضوی نے اس صورتحال کو الارمنگ قرار دیا، رضوی کے مطابق پچھلے دنوں ہم نے قریب قریب ڈیڑھ درجن کے قریب دواؤں کے ٹیسٹ کئے، تمام کی تمام جعلی اور مُضرِ صحت قرار پائیں، ان دواؤں میں صرف کیلشئیم کاربونیٹ اور اسکولوں میں لکھنے والا چاک اور چونا پایا گیا، ان دواؤں میں ٹائیفائڈ میں استعمال ہونے والی دوائیں بھی شامل تھیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق "اگر کوئی مریض کسی بھی ہلکی پھلکی بیماری میں کسی ڈاکٹر سے رابطہ کرتا ہے، یا ٹیسٹ کے دوران اسے کوئی بیماری "ڈائی گنوز" ہو جاتی ہے، اور وہ مریض ڈاکٹر سے نُسخہ لکھوا کر مارکیٹ سے دوا خریدتا ہے، اگر اسے جعلی دوا مل جائے، تو بجائے مرض ٹھیک ہونے کے مریض کسی بہت بڑے مرض مثلاً کینسر یا زندگی کو کھا جانے والی کوئی دوسری بیماری کا شکار ہو کر بسترِ مَرگ پر جا گرتا ہے"۔ ان کے مطابق ہمارا پورا ہیلتھ کئیر سسٹم شک کی بنیادوں پر کھڑا ہے۔
ڈاکٹر سجاد کے مطابق ماضی میں کئی بار ہیلتھ اتھارٹیز کو گزارشات اور سفارشات ارسال کی گئی اور کی جاتی ہیں، لیکن جس ایکشن کی توقع اور ضرورت ہوتی ہے، وہ کبھی بھی کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر قیصر سجاد نے اسے قتل عام سے تشبیہہ دی، اور حکومت اور متعلقہ اتھارٹیز سے مطالبہ کیا کہ ایسے ضمیر فروش اور جعلی دوائی فروشوں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمات درج کئے اور چلائے جائیں۔ دل کے امراض، ذہنی سکون، جان بچانے والی ادوایات اور ٹائیفائیڈ سمیت دوسرے امراض میں مبتلا مریض جب جان کی بازی ہار کر معاشرے کے کندھوں پر آتے ہیں، تو عمومی طور پر معاشرہ "ارے بھائی وقت پورا ہوگیا تھا، کوئی نہ کوئی بہانہ تو بنتا تھا" جیسا جملہ بول کر مردے کو قبر میں لُڑھکا دیتے ہیں۔
تین دہائی قبل گورنر پنجاب کی میز پر جعلی دوائیان پہنچانے والے تین دن پہلے کے چھاپے تک اب تک پورے دھڑلے اور ثابت قدمی سے بے ایمانی کا یہ دھندا پوری ایمانداری سے انجام دے رہا ہے۔ ہیلتھ اتھارٹی کے ذمہ داران نے دورانِ کاروائی اس کاروبار کو انتہائی مُنظم قرار دیا، جو باہمی تعاون، اور رازداری کی بنیاد پر مارکیٹ میں چل رہا ہے، اسکی بڑھوتری کی رفتار سال 2012 میں 431 بلین ڈالر تھی، جس میں ایک دہائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
تین دہائی قبل جیسی شِدت سے یہ مسئلہ اُبھر کر سامنے آیا، اُسی شِدت سے جعلی دوائیاں مارکیٹ میں مُسلسل پھیل رہی ہیں، سوال یہ ہے کہ متعلقہ ادارے اسی شِدت سے اس "زندگی نِگل عَفریت" کو کیوں روک نہیں پارہے؟