Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Lahoo Lahoo January

Lahoo Lahoo January

لہو لہو جنوری

بعض اوقات گوگل پر سَرچ کرتے کرتے ایسی ایسی باتیں نظروں سے گزرتی ہیں، جن پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے، حالانکہ ہوتی بالکل سچ ہیں، لیکن ہماری عینک میں چونکہ شَک کا شیشہ فِٹ ہے، اس لئے شَفاف چیزوں میں کیڑے تلاش کرنا ہمارے خون میں شامل ہو چکا ہے۔ صبح گوگل پر سرچ کرتے کرتے کئی یورپی ممالک میں انسانی قتل عام کے فِگرز دیکھ کر پہلے پہل تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا، پھر اچھی طرح آنکھیں مَسل کر دوبارہ پھر سہ بارہ دیکھا، تو انسانی جان کی حُرمت اور انسانی جان کے ضیاع کا فرق دیکھ کر شرم سے کان تک لال ہو گئے۔

پہلے اپنے ملک کا خونی جنوری دیکھ لیں۔ پشاور میں پولیس لائنز کے اندر مسجد میں نماز کے دوران خودکش دھماکا، آخری اطلاعات تک مرنے والوں کی تعداد سو سے آگے جا چکی ہے، زخمی ہسپتالوں میں پڑے کَراہ رہے ہیں، ان زخمیوں میں بعض زندگی بھر کیلئے معذوری کی مصیبت جھیلتے رہیں گے۔ دھماکہ خودکش قرار۔

کوہاٹ کے تفریحی مقام ٹانڈہ ڈیم میں مدرسے کے بچے سیر کے لیے گئے، کشتی میں سوار سیر کرتے بچوں کی کشتی ڈیم میں ڈوب گئی، اب تک پچاس سے زائد معصوم بچے ڈیم کی سیر کرتے کرتے کسی اور جہاں کی سیر کو جا چکے ہیں، گھر والوں پر خبر قیامت بن کر ٹوٹی، لیکن معصوم جگر کے ٹکڑے قیامت تک نہیں مل پائیں گے، کشتی بنانے والا اور چلانے والا بھی کوئی ہم جیسا ہوشیار پاکستانی ہی ہوگا۔

کوئٹہ سے کراچی آنے والی ایک بس لسبیلہ کے قریب گہری کھائی میں جا گری، تمام اکتالیس کے اکتالیس مسافر زندہ جَل کر مَر گئے، یہ صرف اکتالیس مسافر ہی نہیں تھے، اکتالیس خاندان بھی تھے، جو دُکھ، افلاس اور پریشانی کی گہری کھائی میں جا گرے، بس چلانے والا ڈرائیور بھی حادثے سے پہلے سب سے مُشاق اور ہوشیار ڈرائیور ہوگا۔

ان تین واقعات میں تقریباً دو سو کے قریب لوگ جان کی بازی ہار گئے، دو سو خاندان ان دنوں قیامت بھگتا رہے ہیں، دو سو کے قریب خاندانوں نے رشتوں کی زنجیر اپنے سامنے ٹوٹتے ہوئے دیکھی۔ دو سو کے قریب مائیں اپنے لَختِ جِگر، باپ اپنے آنکھوں کے تارے، بہنیں اپنے بھائی دُلارے، بھائی اپنے قوتِ بازو، بیٹے اپنے سَر کا سایہ، سہاگنیں اپنے سَر کا سائیں اور معصوم بَچّے اپنے باپ کی ٹھنڈی چھاؤں سے زندگی بھر کے لئے محروم ہو گئے ہیں، یہ دو سو خاندان زندگی کی روشنی تلاش کر رہے ہیں، لیکن روشنی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی، ان دو سو خاندانوں کی زندگی سے روشنی چھین کر انہیں تاریکی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔

یہ دو سو خاندان کس ادارے کے سربراہ کا گریبان پکڑیں، کس کشتی کے ناخدا کو تلاش کریں، کس ڈرائیور سے اس کی مہارت بابت دریافت کریں، کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں؟ جنوری کے فروری میں تبدیل ہوتے ہی اخباری بیانات کی شدت تو کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن ان دو سو خاندانوں کی تکلیف کی شدت شاید زندگی بھر کم نہ ہو پائے گی۔ اب ذرا دنیا کے مختلف خطوں کے ممالک میں ہلاکت خیز واقعات پر نظر ڈال لیں، مکمل تفصیل گوگل پر دستیاب ہے، سرچ کریں اور پڑھتا جا شرماتا جا۔

ایشیائی ممالک میں جاپان، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں انسانی اموات کی شرح ایشیا بھر میں سب سے کم ہے، اتنی کم کہ یقین نہ آئے، ان ملکوں میں ہلاکتوں کی پورے سال کی تعداد ہمارے چند دنوں کی تعداد کے برابر ہے، یورپی ممالک میں لکسمبرگ، ناروے اور سویٹزرلینڈ جیسے ممالک نے قتل عام نامی لفظ کو اپنی سوسائٹی سے ہی نکال باہر کر دکھایا ہے، ان ملکوں کی عوام اپنے آپ کو خوش قسمت ترین تصور کرتے ہیں، اپنے مسلم ملکوں میں عُمان اور دبئی سمیت یو اے ای کی تمام ریاستیں بھی اپنے عوام کے گِرد سکون اور سلامتی کا مضبوط جال بُن چکے ہیں، ان ملکوں کے لوگ بھی قتل عام نامی لفظ کو کب کا بُھول چُکے، ان مسلم ریاستوں میں بھی ہلاکت خیزی کی شرح بعض یورپی ممالک سے بھی کم ہیں۔

چلتے چلتے گئے جنوری میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بھی دیکھ لیں، یعنی مَرے پر سَواں دُرہ ڈاکوؤں نے بھی دے مارا، صرف ایک مہینے میں تیرہ افراد ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بن کر قبرستان جا چکے ہیں، جن میں ایک عورت بھی شامل تھی، بیس سے زائد زخمی بھی مختلف ہسپتالوں میں اپنے خرچے پر علاج معالجے میں مصروف ہیں۔ یہ تیرہ افراد صرف ایک مہینے اور صرف ایک شہر کے فِگرز ہیں، اگر اس تعداد میں حیدرآباد، سکھر، لاہور، فیصل آباد، پشاور اور کوئٹہ کے فِگرز بھی ملائیں، تو یہ ضرب تقسیم آپ کو مزید شَرمسَار اور ذہنی مریض بنا دے گی۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi