Khawaja Saad Rafique
خواجہ سعد رفیق
خواجہ سعد رفیق پَکّے لاہوریئے ہیں، اِسی شہر کی پیدائش، اِسی شہر کا عشق، اِسی شہر میں کاروبار اور اِسی شہر سے سیاست کا آغاز کیا، جو اِسی شہر کی بنیاد پر اب تک جاری و ساری ہے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران خواجہ صاحب نے کئی بار بدترین حالات کو دیکھا، بُھگتا اور ہَنس کر آگے بڑھ گئے، پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی اس نڈر، بے باک اور شفاف سیاست دان کا ہمیشہ ایمان رہا ہے۔
بُرے سے بُرے حالات میں بھی اُمید کا دامن تھام کر آگے بڑھنا، اور جدو جہد کرنا سیکھنا ہو، تو خواجہ سعد رفیق سے بہتر مثال پاکستانی سیاست میں شاید ہی مل سکے۔ جنرل مشرف کی "مُکّا دِکھا آمریت" اور عمران خان کی "ماحولیاتی تبدیلی" حکومتیں بھی جواں عزم خواجہ کا عزم متزلزل نہیں کرسکیں۔
مُکّے اور جنون کے انتقام کے واقعات کا تذکرہ کرنے سے پہلے خواجہ سعد رفیق کا چند دن پہلے کا بیان پڑھ لیں، جو تمام قومی اخبارات نے سرخیوں میں شائع کیا۔
خواجہ سعد رفیق کا چونکا دینے والا بیان پڑھ لیں۔ "پاکستان کی سیاست سے دلبر داشتہ ہوگیا ہوں، اور اس قدر دلبرداشتہ ہوں، کہ کچھ بھی بننا پسند نہیں کرنا چاہتا، یہ جو چیچک زدہ جمہوریت ہے، اس سے میں بلکل بھی مطمئن نہیں ہوں۔
اس بیان میں خواجہ سعد رفیق نے مزید پاکستانی چیچک زدہ جمہوریت کی وجوہات بھی بیان کیں، جسے ہم آخر میں دیکھیں گے۔
12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کیا، تو مسلم لیگی وزیر اعظم سے لے کر مُشیروں، اور مشیروں سے لے کر جفادری کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں، اور انہیں پکڑ پکڑ کر ملک کی مختلف جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔
خواجہ سعد رفیق بھی ان گرفتار شدگان میں شامل تھے، بعد از مشرف حکومت جب لولی لنگڑی جمہوریت دوبارہ بحال ہوئی، تو خواجہ صاحب لاہور سے قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کے ایوان کی زینت بن گئے، قومی اسمبلی کے فلور پر ایک دن اپنی دورانِ حراست کہانی سنا کر نہ صرف پورے ایوان بلکہ ملک بھر کے حساس سیاسی دانشوروں اور کارکنوں کو پریشان کردیا۔ بقول خواجہ سعد رفیق"دوران گرفتاری مجھے الٹا لٹکا کر تشدد کیا جاتا تھا، اور ق لیگ میں شمولیت کے لئے کہا جاتا تھا، اپنے اوپر تشدد کرنے والے وہ چہرے مجھے اب تک یاد ہیں"، خواجہ سعد رفیق پر تشدد کا احوال لوگوں کے رونگٹے کھڑے کروا گیا۔
وقت کا پہیہ چونکہ رک نہیں سکتا، معاملات آگے بڑھے اور جناب عمران خان تبدیلی کے ساتھ وزیراعظم بن گئے، خواجہ سعد رفیق ایک بار پھر زیر عتاب آگئے، پھر گرفتار ہوئے، جیل سے عدالت اور عدالت سے جیل کی "چھپن چھپائی" پھر بھگتائی، عدالت کے بار بار ثبوت کے جواب میں اداروں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا، آخر تنگ آکر سولہ مہینوں کے بعد اچھی طرح "رگڑا" لگا کر خواجہ کو رہا کردیا گیا۔
خواجہ سعد رفیق کی رہائی پر سپریم کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس مقبول باقر نے 78 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا، جسکا ایک جملہ قانونی، سیاسی، تاریخی اور عوامی سطح پر خواجہ سعد رفیق کی بے گناہی کا ہمیشہ چیخ چیخ کر اعلان کرتا رہے گا۔ روشن دل و دماغ کے حامل جج صاحب نے لکھا۔
"اگر انسانی عظمت کی تذلیل دیکھنی ہو، تو خواجہ سعد رفیق کا کیس دیکھ لیں"، یہ جملہ پڑھکر باشعور سول سوسائٹی اور پاکستانی سیاسی کارکنوں تک کے چہرے شرم سے لال ہوگئے، لیکن کسی کی انتقام کی آگ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھک اٹھی۔
خواجہ سعد رفیق کا سیاسی کیرئیر ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے، لیکن جواں عزم خواجہ نے کبھی بھی سیاست سے دلبرداشتگی کا تاثر نہیں دیا۔ حالیہ سیاسی دلبرداشتگی کی وجہ انہوں نے چیچک زدہ جمہوریت بتلائی، اور اِس "چیچکی سیاست" کی تین بنیادی وجوہات بھی بتلائیں۔
نمبر ایک، خاندانی سیاست، جسکی وجہ سے سیاسی پارٹیاں کبھی بھی ادارے نہیں بن سکیں، خاندانی پارٹیوں کو جماعت اسلامی کے سسٹم سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھنا چاہئیے۔
دوم، جمہوریت میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت۔
سوم، نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دینے والا جوڈیشری سسٹم، خواجہ سعد رفیق کے نزدیک ان تین خرابیوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا، ان تینوں خرابیوں پر پاکستان کے بائیس کروڑ عوام خواجہ صاحب سے متفق ہیں۔
پاکستانی عوام نے قیام پاکستان سے اب تک ان تینوں خرابیوں کو کئی بار دیکھا اور بُھگتا ہے۔ یہ تینوں خرابیاں نہیں، ریورس گیئر ہیں، آپ خود اندازہ کریں کہ دنیا کی ہر گاڑی میں صرف ایک ریورس گئیر ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں تین ریورس گئیر لگ چکے ہیں، اور تینوں کے تینوں آٹومیٹک، پھر جمہوریت، ترقی، معاشی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی منزل نزدیک آنے کے بجائے دن بہ دن دور ہی دور ہوتی جارہی ہے، جب تک یہ تینوں ریورس گیئر توڑ کر گاڑی سے الگ نہ کیے گئے، اس وقت تک ذلت و رسوائی کا سفرِ معکوس جاری رہے گا۔
آخر میں اس بیان میں موجود اچھی خبر کہ خواجہ سعد رفیق نے سیاست سے بہت زیادہ دلبرداشتہ ہونے کے باوجود آخر دم تک سیاست کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جناب رضا ربّانی، جناب مالک بلوچ، اور حافظ نعیم الرحمان جیسے گنے چنے سیاسی ستاروں میں سے اگر خواجہ صاحب نکل گئے، تو امید بھری کہکشاں کی روشنی مزید ماند پڑ جائے گی، اور پھر پیچھے کیا بچے گا، شاید صرف "سیاسی کچرا"۔