1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Karachi Press Club Mein Tamasha

Karachi Press Club Mein Tamasha

کراچی پریس کلب میں تماشا

25 نومبر بروز جمعہ شام کو تقریباً پانچ، ساڑھے پانچ بجے کے قریب قریب کراچی پریس کلب پہنچے، تو دن کی روشنی اندھیرے کے ہاتھوں شکست کھا چکی تھی، لیکن ابھی مغرب میں کچھ وقت تھا، مرکزی دروازے پر بیٹھے لَحیم شَحیم گارڈ نے سنجیدگی سے سوال کیا، "جی کہاں"؟"سُنا ہے یہاں کوئی تماشا ہونے والا ہے"، میں نے جواب دیتے ہوئے کہا، "یہاں تو روز تماشے ہوتے ہیں، آپ کونسے نئے تماشے کی بات کر رہے ہیں"؟

گارڈ کے جواب نے ثابت کیا، کہ تِل اور گلاب کچھ عرصہ اکٹھے رکھے جائیں، تو تِلوں میں بھی گلاب کی خوشبو آ جاتی ہے، میں نے موبائل میں واٹس ایپ دعوت نامہ دکھایا، گارڈ نے سر ہلایا، ہم نے قدم بڑھایا، اور زندگی میں پہلی بار پریس کلب کی عمارت میں داخل ہو گئے۔

کچھ روز پہلے پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کی خواتین ونگ کی صدر عزیز فاطمہ نے محترم اقبال ہاشمی کی نئی کتاب "تماشا" کی تقریب رونمائی جو کراچی پریس کلب میں رکھی گئی تھی، کا دعوت نامہ واٹس ایپ کیا، احترامِ عزیزیت میں انکار ممکن نہ تھا، سو جمعہ کے روز تقریب میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ اقبال ہاشمی صاحب کے متعلق عزیز فاطمہ صاحبہ نے بتایا کہ ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں، تو ہمیں خیال آیا کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، باوردی افسران کے تماشے دیکھ رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد تو اکثر مشہور تماشہ کرنے والے بھی "لاپتہ" ہو گئے، لیکن تماشے بدستور جاری ہیں۔

تقریب میں جاتے ہوئے یہ خیال بھی بار بار آ رہا تھا، کہ مصنف چونکہ فوجی افسر ہیں، ہو سکتا ہے کچھ "جوان" بھی ساتھ لے آئیں، کہ بھئی ہماری کتاب مزاح سے متعلق ہے، اس لیے ہنسنا تو سب کو پڑے گا، پھر "جوانوں" سے متعلق یہ خیال بھی آیا کہ ہو سکتا ہے کہ صاحبِ کتاب ایک ایک ورق پڑھتے جائیں، اور "جوان" گُدگُدی کرنے کے فرائض سنبھال لیں، تاکہ محفل کشتِ زعفران بن جائے، چاہے زبردستی۔

لیکن تقریب میں دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے کہیں بھی نہ کوئی باوردی اور نہ سِول کپڑوں میں نظر آیا، تو اطمینان کا سانس لیا، پھر صاحب کتاب کو دیکھا تو سارا "خوف" نکل گیا، کہ وہ فوجی افسر نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کے کزن لگتے ہیں، اب مولانا بھی بعض اوقات زبردستی ہنسا دیتے ہیں، لیکن اُن کی گُدگُدی میں خوف کا عنصر موجود نہیں ہوتا۔

تقریب کی نمایاں شخصیات میں جناب الطاف شکور جنہیں دیکھ کر مجھے "چی گویرا" شدت سے یاد آ گئے، ان کی تقریر سنتے ہی محسوس ہوگیا کہ الطاف بھائی (وہ والے نہیں) لفاظی کے ماہر نہیں، لیکن منافقت سے پاک ہیں، جیسے اندر سے ہیں ویسے ہی باہر سے دکھتے ہیں، ان کو دیکھ کر، ان سے مِل کر بہت خوشی ہوئی۔

تقریب کی نظامت زبان و انداز کے استاد محترم سلیم مغل نے کی، جنہوں نے اپنی زبان دانی اور برجستگی کی وجہ سے پوری تقریب کو ایک ماہر چرواہے کی طرح قابو رکھا، جو کوئی بھی بھیڑ بکری گلّے سے اِدھر اُدھر نہیں ہونے دی، تمام سامعین کی اول سے آخر تک توجہ سلیم مغل صاحب کی نظامت کی مرہون منت رہی، زبان پر قدرت اور لفظوں کے چناؤ میں سلیم صاحب کو شہزادہ سلیم کہوں، یا مغل اعظم۔

روزنامہ ایکسپریس کے محمد عثمان جامعی کو دیکھا، سُنا اور "تماشہ" پر ان کی رائے کو سب نے اپنے دل کی آواز محسوس کیا، روزنامہ جنگ کے جناب محمد اسلام نے اپنے مخصوص انداز میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا، بھائی مظفر اعجاز کا اندازِ بیان پرانے دنوں کو یاد کرا گیا، جب کراچی کا معاشرہ ایک دوسرے سے سہمے بغیر ایک دوسرے سے اپنے دل کی بات کر لیتا تھا، گزشتہ بیس، پچیس سالوں سے اس خوف و دہشت کی فضا نے ہم سب کو اپنے اپنے خول میں بند کر دیا ہے۔

اے ایچ خانزادہ تھوڑی دیر کے لئے آئے، لیکن اپنی خوشبو چھوڑ گئے۔

خلیل اللہ فاروقی ویسے تو بڑے کم گو لگے، لیکن تقریر شروع کی تو سب سے پلّہ بھاری، ان کی تقریر سن کر ایسے لگا کہ جیسے چھوٹی سی یو ایس بی میں شہر کراچی، پاکستان اور دنیا بھر کا ڈیٹا محفوظ ہے، اور جسے خلیل بھائی بڑی مہارت سے استعمال کرنے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں، ان کی تقریر کے دوران کئی بار تالیوں کی گونج نے ان کو اس تقریب کا "میرِ محفل" قرار دیا، بعد از تقریب، میں خلیل بھائی سے خاص طور پر مل کر ان کی صلاحیتوں کا تذکرہ کر کے آیا۔

محترمہ عزیز فاطمہ تقریب سے پہلے، دوران اور آخر تک مسلسل مصروف و متحرک رہیں، تقریب کے کامیاب انعقاد کا سہرا یقیناً عزیز کے سر ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی سہرا بندی نہیں ہوتی، چاہے وہ کتنی ہی قابل کیوں نہ ہو، بہرحال عزیز فاطمہ کی انتظامی صلاحیتیں، ویل ڈن۔

تماشا طنز و مزاح سے بھرپور کاوش ہے۔ صاحبِ کتاب کی تحریر نے ثابت کر دیا کہ وہ عام قلم کار نہیں ہیں، بلکہ ادب میں بھی اپنے فوجی رتبے کی طرح کے مرتبے کے حق دار ہیں۔ چونکہ شگفتگی ہو یا سنجیدگی قلم کی باریک نوک سے ہی لکھی جاتی ہے، اسی لئے کہیں کہیں نوک کی چبھن زیادہ محسوس ہوئی، جسکی طرف عثان جامعی نے اپنی تقریر میں اشارہ بھی کیا، اور صاحبِ کتاب نے اس سے جُزوی اتفاق بھی کیا۔

تقریب میں شرکت کے لیے گھر سے نکلا، تو ٹوٹی سڑکیں، اُڑتی گَرد، بے ہنگم ٹریفک، ملکی سیاست و معیشت سے متعلق عجیب و غریب خبریں اور پھر ان خبروں سے بُرے بُرے خیالات، ان سب چیزوں کا وزن لے کر کراچی پریس کلب پہنچا، لیکن بعد از تقریب شگفتگی، اقدار، زبان دانی، احترام انسانیت، اور زبان و ادب پَرور لوگوں سے مل کر پریس کلب سے نکلتے ہوئے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا۔

Check Also

Exceptional Case

By Azhar Hussain Bhatti