1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zafar Bashir Warraich/
  4. Karachi Election, PP Ki Jeet Ya Haar

Karachi Election, PP Ki Jeet Ya Haar

کراچی الیکشن، پی پی کی جیت یا ہار

حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا تذکرہ کرنے سے پہلے ذرا ماضی میں جھانک لیں۔

30 نومبر 1967 کو جب پنجاب کے شہر لاہور میں بھٹو صاحب نے پی پی کی بنیاد رکھی، تو نہ صرف پاکستان کے شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ بلکہ گاؤں گوٹھوں کے پسے ہوئے طَبقات نے بھی آگے بڑھ کر لاڑکانہ کے اِس جاگیردار کے گلے میں اعتماد کے پھولوں کے ہار پہنا دئیے۔ اپنی اعلیٰ تعلیم، طبعیت کی چُستی، اور عوامی نبض شناسی کی صلاحیت سے جلد ہی ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی پورے ملک کے ہر طَبقے کے لیڈر اور پارٹی قرار پائے۔

1970 کے جنرل الیکشن میں بھی مغربی پاکستان کے عوام نے بھٹو کو اپنا لیڈر، اور پی پی کو اپنی سیاسی پارٹی تسلیم کر لیا۔ 5 جولائی 1977 کے ضیائی مارشل لاء سے 1988 میں شَہادت مردِ مومن تک بھی، پی پی پورے ملک کی پارٹی رہی، اور بھٹو صاحب شہادت کے باوجود بھی لوگوں کے دِلوں میں زندہ رہے، اس وقت تک کبھی بھی پیپلز پارٹی کو سندھ کی پارٹی نہیں کہا گیا۔

پیپلز پارٹی کے 1988 کے بی بی کے پہلے دورِ حکومت سے لیکر 27 دسمبر 2007 کے بےنظیر بھٹو کے المناک قتل تک بھی پیپلز پارٹی قومی پارٹی اور چاروں صوبوں کی زنجیر بےنظیر بےنظیر ہی کہلائیں۔ محترمہ کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کے راج سنگھاسن کے مالک محترم آصف علی زرداری قرار پائے۔ "زرداری" اور "بھٹو" جسطرح سندھ کے الگ الگ مشہور قبیلے ہیں، اُسی طرح زرداری صاحب کی سیاست بھی بھٹو صاحب سے "وَکھری ٹائپ" کی ثابت ہوئی۔

پاکستانی سیاست کے کاریگروں نے بی بی کی وفات سے پہلے کے زرداری کا ایک نیا روپ دیکھا، جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی کاروبارِ سیاست میں اتنا مقبول ہوا، کہ زرداری صاحب کی "نَقل و حَرکت" اور "نشست و بَرخاست" سے ہی حکومتیں، اسمبلیاں، پارٹیاں اور ممبرانِ قومی و صوبائی کی "اُٹھک بَیٹھک" کا آغاز یا انجام شروع ہو جاتا ہے، بعض اوقات کسی کا دھڑن تختہ بھی ہو جاتا ہے۔

اس مُفاہمتی سیاست نے پاکستانی سیاسی مضمون میں ایک نئے باب کو تو جنم دے دیا، لیکن پی پی پہلی بار سیاسی قومی پارٹی سے صرف سندھ کی پارٹی بھی کہلائی جانے لگی۔ یہ بات کڑوی ضرور لیکن حقیقت ہے۔ سندھ کے کچھ اضلاع بشمول کراچی و حیدرآباد کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی اندرون سندھ میں تو اپنے حریفوں کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگئی، لیکن کراچی کے ووٹرز کو رَام کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی، کراچی والے جن میں صرف اُردو بولنے والے ہی نہیں، بلکہ دوسری زبانوں کے حامل بھی پیپلز پارٹی سے ناراض ناراض دکھائی دئیے۔

الیکشن کے بعد اپنے مطلب کے نمبرز کے لئے بھی ووٹوں کی گنتی ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ تین دن تک ہوتی رہی، آٹھ آٹھ، دَس دَس ووٹ اوپر نیچے کر کَرا کے بھی اپنے مطلب کے نمبرز حاصل نہیں ہو پائے تو، اِس "نَمبرانہ اُٹھک بَیٹھک" پر جماعت اسلامی بھی چِلّا اُٹھی، اِسی چِلّاہٹ کی گونج نے "مفاہمت" کے ساز کو پھر چھیڑ دیا ہے، لیکن آخری خَبروں تک "مُفاہمتی نَغمے" کی "جماعتی مولویوں" کو پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی۔

ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہونے والا تحریکی سفر قومی سطح کا تھا، بےنظیر بھٹو نے بھی اس عَلم کو قومی سطح پر لہرایا، اور چاروں صوبوں کی زنجیر کہلائیں۔ لگتا ہے اب یہ قافلہ صرف اندرون سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہوگیا ہے۔ جناب زرداری صاحب، شہروں کے شہر کراچی کو منانے کے لئے نیا روڈ میپ تیار کریں، کراچی والے سعید غنی یا مرتضیٰ وہاب کو سامنے بٹھا دینے سے راضی نہیں ہونگے، اس کا اعلان ووٹ کے ذریعے (چاہے جتنے بھی پَڑے) ہو چکا ہے۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan