Itikaf Se Pehlay Aur Itikaf Ke Baad
اعتکاف سے پہلے اور اعتکاف کے بعد
ایئرپورٹ پر فلائٹ ٹائمنگ بورڈ پر جیسے ہی سعودی عرب سے آنے والی فلائٹ کا نمبر آیا اور بورڈ نے جہاز ائیرپورٹ پر اترنے کی اطلاع دی، تھوڑی دیر بعد میرا عراقی دوست خالد الہاشم ہنستا مسکراتا باہر نکلا، اور مجھے دیکھتے ہی بغل گیر ہوگیا، خالد میرا انٹرنیٹ دوست ہے، خالد میرا دوست کیسے بنا یہ تو میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا، پہلے خالد کی کہانی خالد کی زبانی سنیں۔
میرا گاؤں بغداد سے 30 کلومیٹر کی مسافت پر ہے، اس سرسبز اور شاداب گاؤں کو اگر عراق کا سب سے چھوٹا گاؤں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، میرا کنبہ کل چھہ نفوس پر مشتمل تھا۔ میں، میرے ماں باپ اور بہن بھائی، میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، گھر کی مالی حالت پتلی تھی، زیادہ تر گذارا کھجور اور پانی پر ہی ہوتا تھا، مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا، میرے اس شوق کا قدرت نے بھی ساتھ دیا اور میں سکالر شپس لے کر اعلی تعلیم حاصل کرتا گیا، میں نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ پورے بغداد کا بھی پہلا پیٹرولیم انجینیر تھا۔
اس سے پہلے یہ ڈگری عراق میں موجود صرف انگریزوں کے پاس ہوا کرتی تھی، میرا خیال تھا ڈگری کے حصول کے بعد میری مالی پریشانیاں کم ہو جائیں گی، لیکن میرا خیال چند دنوں میں ہی میرے سامنے دم توڑ گیا، ساری پٹرولیم کمپنیاں مقامی کے بجائے یورپ کے ڈگری ہولڈرز کو ترجیح دیتیں، میں مایوس ہوگیا، کھانا پینا تو ویسے ہی کم تھا لیکن میں نے بولنا چالنا بھی بند کر دیا۔
میری ماں میری حالت سے بہت پریشان ہوگئی، میرے کسی دوست نے مجھے بغداد شہر جانے کا مشورہ دیا، میں بغداد شہر چلا گیا، اور ہوٹلوں میں برتن دھونے لگا، یہ میری صلاحیت اور ڈگری کی توہین تھی، مایوسی کی حالت میں ہی میں شراب کی طرف راغب ہوگیا، دن بھر کے کمائے ہوئے پیسے سے میں شراب پینے لگا، رات کو شراب پیتا اور پھر گلیوں اور نا لیوں میں گرتا پھرتا ہوٹل کے کوارٹر میں جاگرتا اور صبح دوبارہ ہوٹل کے گندے برتن میرا انتظار کر رہے ہوتے۔
میں دو سال سے اپنے گاؤں نہیں گیا تھا، گھر والوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر میرا نمبر لیا، اور مجھے گاؤں واپس آنے کا کہا، وہ رمضان کی بیس تاریخ تھی جب میں سہ پہر کے وقت گاؤں میں داخل ہوا، دھوپ اور اندھیرے میں جنگ جاری تھی، تھوڑی دیر میں شام ہونے والی تھی، جب میں گھر میں داخل ہوا تو میرے ماں باپ، بہن بھائیوں نے ہنستے مسکراتے چہروں سے میرا استقبال کیا، زندگی میں پہلی بار گاؤں اور فیملی کی اہمیت کا احساس میری رگ رگ میں جاگ اٹھا۔
روزہ کھولنے سے تھوڑی دیر پہلے گھر سے باہر نکلا، میرے پڑوس میں بزرگ جو پچھلے سال انتقال کر گئے تھے، گاؤں کی مسجد میں ہمیشہ اعتکاف وہی کیا کرتے تھے، ان کے بیٹے سے تعزیت کے دوران پتہ چلا کہ اس بار پورے گاؤں سے کوئی بھی شخص اعتکاف میں نہیں بیٹھ رہا، "اگر پوری بستی سے ایک آدمی بھی اعتکاف نہ بیٹھے تو پوری بستی گنہگار ہوگی"، ان کے بیٹے کا آخری جملہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا، میں اٹھا، اپنے گھر واپس آیا، بستر پر رکھیں دو چادریں اٹھائیں، تکیہ بغل میں دبایا اور ماں سے فیصلہ کن لہجے میں کہا "میں اعتکاف میں بیٹھوں گا"، ماں نے خوف و شفقت کی ملی جلی نگاہوں سے میرے والد کی طرف دیکھا انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور میں مسجد کی طرف چل دیا۔
گھر سے نکلتے وقت افتار کے لئے چند کھجوریں اور وہی پانی کی صراحی رکھی تھی۔
مسجد کے امام صاحب کو اطلاع دی کہ میں اعتکاف کروں گا، امام صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے میرا خیال تھا شاید اس بار پورے گاؤں سے کوئی بھی اعتکاف نہ کرے، مجھے بستی کی ہلاکت کا خوف محسوس ہو رہا تھا۔
اعتکاف میں بھی وہی کھجوریں اور پانی کی صراحی، اسی سے سحری اسی سے افطاری، میں نے اس اعتکاف میں بندگی کی انتہا کر دی، میرا ہر ہر لمحہ بندگی میں گزر رہا تھا، ٹھیک رمضان کی ستائیسویں شب کو میں رات کو قرآن پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن میں پتا نہیں کیا خیال آیا، میں نے قرآن بند کیا اور سجدے میں چلا گیا، اچانک میرے ذہن میں میرا گھر، گھر والے، میری تعلیم، میری مفلسی، اور بغداد میں گزرے دو سال پروجیکٹر کی طرح چلنے لگے، ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور میں زار و قطار رونے لگا، پوری مسجد میں اکیلا تھا، روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی، میرے منہ سے کوئی لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا۔
میرے رونے کی آواز سن کر برابر حجرے سے مسجد کے امام صاحب باہر آئے، میری کیفیت دیکھی، کچھ دیر کھڑے رہے اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آہستگی سے بولے "خالد اب سجدے سے اٹھ جاؤ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گاؤں کی ہر کھجور پر قیامت تک کھجور کے گچھوں کی بھرمار ہوگی"۔ اس وقت تو میری سمجھ میں نہیں آئی، لیکن دوسرے دن افطاری کے وقت میں اور امام صاحب افطار کر رہے تھے تو سامنے کھجوریں رکھی تھیں، امام صاحب نے ایک کھجور اٹھائی اور کہنے لگے "تم کھجوروں کی تجارت کیوں نہیں کرتے" میں نے حیرت سے امام صاحب کی طرف دیکھا اور کہا میں نے تجارت نہیں انجینئرنگ کی ڈگری لی ہے، امام صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تجارت کے لئے کسی ڈگری کی نہیں صرف ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، میں حیرت سے کھجوریں کھانے لگا۔
عید کا چاند نظر آیا، اعتکاف ختم ہوا، میں ایک زندگی سے دوسری زندگی میں داخل ہوگیا، گاؤں کے سب سے بڑے کھجور کے باغ کے مالک سے بیچنے کے لیے ادھار کھجوریں مانگیں، اس نے صاف انکار کردیا، میں نے چھوٹے باغ کے مالک سے کہا، اس نے خوش دلی سے اجازت دے دی، میں نے بغداد شہر کا رخ کیا، اللہ نے کرم کیا، اور میں اگلا پورا سال نہ صرف بغداد بلکہ بصرہ سمیت 4 بڑے شہروں میں کھجوریں سپلائی کرنے لگا، میرا برانڈ ان شہروں میں بے حد مقبول ہوگیا، اگلے رمضان سے پہلے پہلے میں نے گاؤں کے سب سے بڑے باغ (جس کے مالک نے شروع میں مجھے کھجوریں دینے سے انکار کر دیا تھا) کی ساری فصل خریدی اور عراق کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں میرا کھجور برانڈ ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا، میرا برانڈ سپرہٹ ہو چکا تھا۔
اعتکاف کے بعد پہلا رمضان میری زندگی کا سب سے مصروف رمضان تھا، میں عراق میں کھجوروں کا سب سے بڑا تاجر بن چکا تھا، اِس وقت عراق کی 50 فیصد سے زائد کھجور کی فصل میری کمپنی ہی خریدتی ہے، پیک کرواتی ہے اور عراق کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بھجواتی ہے، اس سال ہم یورپ ایکسپورٹ کے لئے بھی پوری طرح تیار ہیں۔ لیکن تمام تر مصروفیت کے باوجود میں ہرسال گاؤں کی مسجد میں بیسویں روزے کو پہنچتا ہوں اور اعتکاف میں بیٹھتا ہوں کیونکہ میری زندگی اعتکاف نے بدلی ہے۔
اس وقت میری کمپنی نہ صرف عراق بلکہ سعودی عرب، ایران اور عرب کے دوسرے ملکوں کے علاوہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی مشہور کھجوروں کے باغات کا سودا میری ہی کمپنی کرتی ہے۔
میری کمپنی کے ملازمین کی تعداد دس ہزار لوگوں سے اوپر جا چکی ہے، میرے پاس دنیا بھر کے ویلڈ ویزے موجود ہیں، میں کسی بھی وقت دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتا ہوں، میرے پاس ذاتی استعمال کے لئے دو بہترین گاڑیاں لیکن میری کمپنی کے پاس تقریباً 500 سے زائد گاڑیاں ہیں، میں عراق میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والوں میں شمار ہوتا ہوں۔
لیکن جیسے ہی رمضان کی 20 تاریخ آتی ہے میری تمام دنیاوی مصروفیات ختم ہوجاتی ہیں اور میں ہر سال رمضان کی بیسویں تاریخ کو ہر قیمت پر گاؤں کی مسجد میں پہنچ جاتا ہوں، کہ میری کامیابی کا آغاز اسی مسجد کے اعتکافی سجدوں میں ہوا تھا۔