Ismail Tara, Tareeki Barh Gayi
اسمٰعیل تارا، تاریکی بڑھ گئی
مَعروف مزاحیہ اداکار اسمٰعیل تارا پچھلے دنوں سب کو ہنساتے ہنساتے اچانک رُلا کر چلے گئے۔ وہ ٹیلی ویژن کی اس نسل کی یادگار تھے، جب گھر گھر بلکہ ہر گھر میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا، مُحلّے کے جس ایک گھر میں ٹی وی ہوتا تھا، اسکی دروازہ توڑ شاموں کی یادیں آج بھی اس نسل کے ذہنوں میں محفوظ ہیں، اُس وقت مُحلّے میں جس گھر میں ٹی وی ہوتا تھا، مُحلّے والے پوری کوشش سے اپنے کام دَھنّدے سرِ شام نِمٹا کر ٹی وی کے سامنے آبیٹھتے تھے۔
اُس وقت کے ٹی وی کی اتنی عزت افزائی تھی، کہ شاموں شام چِھڑکاؤ کئے کسی کُھلے صحن یا بڑے کمرے میں اس پر پَڑے رنگین پُھولدار کپڑے کو انتہائی احتیاط سے اوپر اٹھا کر، اسے اِنتہائی احترام سے اسٹارٹ اور پھر اِنتہائی عقیدت اور دل سے پروگرام دیکھے جاتے تھے۔ اُس وقت لکھنے والے مصنفین بھی سادہ، اور ڈَراموں میں کام کرنے والے فنکار بھی تھے تو سادہ، لیکن اپنے فَن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی پروگرام، ڈرامہ یا سیریل بنائی، وہ نہ صرف اَمر ہوگئی، بلکہ کلاسک کا روپ دھار گئی۔
ٹی وی دیکھنے والے بھی اس شوق سے پروگرام دیکھتے، کہ ہر سیریس کردار کے ساتھ ساتھ روتے، اور مزاح کے ساتھ کُھل کر ہَنس ہَنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ اس دور کے پروگراموں کو ہر دور کی ہر نسل نے پسندیدگی کے سرٹیفیکیٹ عطا کئے۔ آج کے سوشل میڈیائی دور میں بھی ان پروگراموں کو لاکھوں بار دیکھا، جانا ان فنکاروں کی فنی عظمت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ اس ابتدائی دور میں فنکار اپنے کردار میں ڈوب کر خود تو شاید غرقِ آب ہو جاتے، لیکن اپنے کردار کو اَمر کر جاتے۔ اسمٰعیل تارا بھی ان ہی بے مثال اداکاروں میں شامل تھے، جو اداکاری کے سمندر میں ڈوب کر اپنا کردار نبھاتے۔
تارا کی فنی عظمت کا اندازہ ایک اسٹیج شو کے دوران ہوا، جب ان کا آٹھ سالہ بیٹا انتقال کر گیا، شو شروع ہونے سے چند لمحے پہلے انتقال کی اطلاع ملی، ہاؤس فُل تھا، پروڈیوسر نے تارا کو گھر جانے کی پیشکش کی، لیکن اس عظیم فنکار نے پہلے بھرے ہوئے ہال کی طرف اور پھر پروڈیوسر کی طرف دیکھا، اور پورے شو کے دوران کہیں بھی لوگوں کو محسوس نہ ہونے دیا کہ اسکے آٹھ سالہ بَچّے کی لاش گھر پر پڑی ہے، شو کے دوران خود اندر سے رونا، اور باہر سے لوگوں کو ہنسانا اسمٰعیل تارا کو زندگی بھر یاد رہا، شو کے بعد جب بَھرے ہال کو بیٹے کی موت کی خبر تارا نے سنائی، تو پورے شو میں ہَنسنے والے اسکے غم میں روتے روتے گھروں کو واپس گئے۔
اسمٰعیل تارا 16 نومبر 1949 کو لاہور میں پیدا ہوئے، پھر قسمت انہیں پِھرتے پِھراتے ٹی وی پر لے آئی، اور "ففٹی ففٹی" کی آمد نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، اسکے جسم میں لگتا تھا دو سو بیس واٹ کا کرنٹ دوڑتا تھا، مائیکل جیکسن امریکہ کے فن نواز معاشرے میں اوپر آیا، اور چھا گیا، لیکن اسمٰعیل تارا کی مائیکل کی نقل کی پرفارمنس نے دنیا کو حیران کر دیا، مگر ہمارا معاشرہ ابھی فن کی حدود کا تعین ہی نہیں کر سکا، مائیکل جیکسن اور اسمٰعیل تارا کو جُدا جُدا معاشرہ، اور اسی لئے جُدا جُدا شہرت اور جُدا جُدا دولت نصیب ہوئی۔
اس نَسل کے ڈراموں اور فنکاروں کی بھی ایک نَسل غُلام ہے، پاکستان کے ہر علاقے، ہر نَسل، ہر زبان کا بندہ اس دور کے فنکاروں کو اپنا سمجھتا تھا، ایسے ہی لوگوں میں گُل حسن خان بھی ہے، ڈرائی فروٹ کا بہت بڑا تاجر ہے، پشاور کے کارخانو بازار میں ڈرائی فروٹ کی بہت بڑی شاپ ہے۔ میرے ساتھ ایک نمائش میں گُل کا تعارف ہوا، تعارف دوستی اور دوستی محبت اور احترام کے رشتے میں تبدیل ہوگئی۔
اسمٰعیل تارا کی وفات کی خبر سن کر گُل خان نے مجھے فون کیا، اور کافی دیر تک اسمٰعیل تارا کی باتیں کرتا رہا، کہنے لگا "مجھے زندگی میں جب بھی ڈِپریشن، وحشت، مایُوسی یا نَاامیدی ہوتی تھی، میں ہمیشہ ففٹی ففٹی کی دو چار قسطیں دیکھ کر دوبارہ زندگی میں لوٹ آتا تھا، مجھے ففٹی ففٹی کے تمام کردار ہمیشہ اپنے اپنے لگے، میرے دل سے ان فنکاروں کے لئے ہمیشہ دعائیں ہی دعائیں نکلتی ہیں۔
گُل خان سے کچھ دیر بات کرتے ہوئے میں نے موضوع اسمٰعیل تارا سے سیاست کی طرف بدلنے کی کوشش کی، تو گُل خان نے سختی سے سیاست کے موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا، ہم نے دوبارہ باتوں کا رُخ اسمٰعیل تارا کی طرف موڑ دیا، فون بند کرنے سے پہلے گُل کہنے لگا، "میں ہمیشہ ففٹی ففٹی دیکھ کر خوب ہنستا تھا، کَبھی کَبھی میری بیوی مجھے بَچّوں کی طرح ہنستے دیکھ کر حیران ہو جاتی تھی، لیکن آج اسمٰعیل تارا کی موت کے بعد پہلی بار، ہاں زندگی میں پہلی بار ففٹی ففٹی دیکھ کر ہنسنے کے بجائے خوب رونا آیا"۔ گُل خان نے روتے روتے فون بند کر دیا۔