Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Hijre

Hijre

ہیجڑے

آج کل کراچی میں ہیجڑوں کی تعداد بہت ہوگئی ہے، جِدھر دیکھو اِن کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں، خاص طور پر ٹریفک سِگنلز، ہَسپتالوں، مارکیٹوں، گلی مُحلّوں، ساحل کِنارے، تو اُن کے جُھنڈ کے جُھنڈ دیکھنے کو مِلتے ہیں۔ اب مسجدوں کے باہر بھی ان کی ٹولیاں نظر آنے لگی ہیں، اچھے بَھلے نمازی بے چارے جو نیک صورت بنائے مسجد سے باہر نکلتے ہیں، اُن کے ایک ٹُھمکے سے ہی توبہ توبہ کرنے لگتے ہیں۔

ٹریفک کے اشارے لال ہوتے ہی یہ چاروں طرف سے اس طرح نازِل ہوتے ہیں، جیسے انہیں دعوت نامہ بھجوایا گیا ہو اور یہ بَن ٹَھن کر تقریب میں شرکت کرنے آئے ہوں، ہَسپتالوں میں بیمار مریضوں کے تِیمار دار جَلدی جَلدی ٹھیک ہونے کے لیے دس، بیس، پچاس روپے ان کی ہتھیلی پر رکھتے ہیں، اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں"دُعا کرو، یہ ٹھیک ہوجائیں"، دُعا کرتے کرتے یہ کسی دوسرے مریض کا مرض ٹھیک کرنے میں لگ جاتے ہیں، مارکیٹوں اور دُکانوں پر تو ان کے ریٹ فِکس ہیں، (یعنی اِن کی خیرات کے) دکاندار پہلے سے ہی ریزگاری کا بندوبست کر رکھتے ہیں، اور ان کے دکان میں گُھستے ہی ایک دو سِکے اِن کی ہتھیلی پر رکھ کر گویا جان چھڑاتے ہیں، اگر کبھی یہ "ُبھوں بَھاں" کریں، تو کاؤنٹر پر بیٹھے حاجی صاحب گاہکوں کے ساتھ ساتھ ان کا کھاتہ بھی برابر کر دیتے ہیں، ایسے میں اِن کی چَلتے ہی بنتی ہے۔

ساحِل کِنارے سمندر کی لہروں کی طرح اَٹھکیلیاں کر کے اپنی پیٹ پُوجا کا سامان کرتے ہیں، ساحِل پر آئے جوان لونڈے ان سے واہیات مذاق اور حرکتیں بھی کرتے ہیں، جس کا یہ بُرا نہیں مناتے، ساحل پر آئے ہمارے پختون بھائی ان سے خاص طور پر دل پشوری کرتے ہیں، یہ لوگ ان سے زیادہ فِری نہیں ہوتے، کیونکہ اکثر پختون نسوار کھاتے ہیں۔

معاف کیجئے گا یہ جملہ پڑھ کر کہیں آپ ناراض مت ہو جائیے گا، اگر آپ مرد ہیں تو آپ کو آپ کی مَردانگی مبارک، خاتون ہیں تو نسوانیت مبارک، میں صرف ان ہیجڑوں کی بات کر رہا ہوں، جو کسی کے ہاں بَچّہ پیدا ہونے پر پورے مُحلّے کو سر پر اٹھا لیتے ہیں، بچے کی پیدائش پر شاید گھر والے اتنی وارفتگی سے خوشی نہیں مناتے، زیادہ سے زیادہ مٹھائی کا ڈبہ لیا، ایک ایک گُلاب جامن حلق میں اُنڈیلا، رشتے داروں کو میسج کیے، ننھے مہمان کی تصویر اتار سوشل میڈیا پر چڑھائی، اور بس۔

لیکن صاحب بَچّے کے گھر والوں سے زیادہ خوشی یہ کُھلے عام بلکہ کُھلی گَلی مناتے ہیں، گھر کی عورتیں مُسکرا مُسکرا کر اور مَرد جَلدی جَلدی جیبوں میں ہاتھ ڈال اِن کی خدمت کرکے اِن کی لاؤڈ اسپیکر سے تیز آوازوں کو بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں، کہ کہیں مُبادا اگلے بَچّے کی خوشی بھی آج ہی نہ منا ڈالیں، بعض ڈھیٹ ہیجڑے کپڑوں کے جوڑے کا تقاضا بھی کرتے ہیں، اگر کوئی بڑا بزرگ غُصہ کرے، تو یہ دوبارہ ہیجڑا بازی پر اترنے کا آغاز کرنے لگتے ہیں، اور کپڑوں کا جوڑا لے کر ہی ٹلتے ہیں۔

کراچی میں بلدیاتی الیکشن کو ہوئے آج مہینہ ہونے کو ہے، لیکن میئر کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا، سیاستدان جو ٹیبل ٹاک اور دُور اندیشی کا دوسرا نام ہوتا ہے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں۔ حالانکہ ان بلدیاتی انتخابات میں ہر پارٹی نے تقریبا ایک جیسا منشور ترتیب دے رکھا تھا، پانی کی کَمیابی، بجلی گیس کی عدم دستیابی، امن و امان کا مسئلہ، اسٹریٹ کرائمز کا عذاب، ٹوٹی سڑکیں اور پُھوٹے نصیب، یہ ہی کراچی والوں کے مسائل کا انتخابی منشور تھا۔

لیکن پانی اگر ایک دن نہ آئے یا پورا سال، بجلی چاہے ایک گھنٹہ بند ہو یا اڑتالیس گھنٹے، گیس کے بل بغیر گیس بھرنا پڑیں، روز لوٹ مار سے لُٹیا ڈوبے، یا گلی مَحلّوں میں موبائل، پرس اور زیور اتروائیں، ٹوٹی سڑکوں پر اپنی کمر کے مہرے توڑ لیں، پھر بھی ایک بار بھی ایک ساتھ باہر نکل کر احتجاج نہیں کر سکے، چلو باہر نہ نکلو، کوئی سوشل میڈیا کمپین ہی کمروں میں گُھس کر منا لو، جس کی تعداد کراچی والوں کی مجموعی تعداد کے برابر ہو۔

تعداد میں بہت کم یہ طَبقہ اپنے پیٹ کے صرف ایک مسئلے کے لیے شہر بھر میں پھیل کر کُھلے عام، ڈنکے کی چوٹ پر، گلے پھاڑ کر، زَرق بَرق لِباس پہن کر سب کو اپنا مسئلہ بتلا کر اُسے کھلے عام حل کرواتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مسئلوں کی لمبی لِسٹ لئے دنیا کے بڑے شہروں میں شُمار شہر کے باسی ایک بار بھی، ایک مسئلے پر بھی، ایک ساتھ نہیں بول سکے۔

تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل ہیجڑا ہے کون۔

(ناراض مت ہوئیے گا، میں بھی کراچی کا شہری ہوں)

Check Also

Muqtadra Ki Hakoomati Bandobast Ki Janib Peh Raft

By Nusrat Javed