Hamara Passport Kahan Khara Hai
ہمارا پاسپورٹ کہاں کھڑا ہے
یہ قریب قریب کوئی آٹھ، ساڑھے آٹھ سو سال پہلے کا ایک معمولی واقعہ ہے، منگول بادشاہ اپنے دربار میں روزمرہ کے درباری کاموں میں مصروف تھا، بادشاہ کے سامنے مختلف واقعات اور کیس پیش کیے جا رہے تھے اور بادشاہ وزیروں کی مشاورت سے ان کا برابر فیصلہ کرتا جا رہا تھا۔ سرکاری ہرکارے بھاگ بھاگ ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے شاہی دستے روانہ کر رہے تھے، کہ اچانک شاہی قاصد کی آمد کی اطلاع ملی۔
شاندار حافظے کا حامل بادشاہ قاصد کی تقریباً چھ ماہ بعد واپسی پر برہم ہوگیا، اور قاصد کی گو شمالی کرنا شروع کی، "تم نے تو یہ پیغام ایک سے ڈیڑھ مہینے میں پہنچانا تھا پھر چھ مہینے کیوں"، بادشاہ کے لہجے میں برہمی نمایاں تھی۔
"مغربی ریاست سے اگلی ریاست کے محافظوں نے قلعے میں داخلے کی اجازت بروقت نہ دی، اپنی پہچان کراتے کراتے کئی روز گزر گئے، یہ مسئلہ پہلے نہ ہوتا تھا، لیکن اب آہستہ آہستہ شناخت کا مسئلہ کئی کئی روز اور بعض اوقات کئی ہفتے ضائع کر دیتا ہے، قاصد نے دست بدستہ جواب دیا۔
بادشاہ کا شدید غصہ شدید تر ہوگیا۔
"ہمارے قاصد کو روکنے کی ہمت کون کر سکتا ہے"، بادشاہ نے غصے سے آگ بگولا ہوتے وزیروں کی طرف دیکھا اور اس مسئلے کا فوری حل پیش کرنے کا حکم دیا۔
سمجھدار اور دانا وزیر نے فوراً حل پیش کر دیا، "سلطنت میں رسائی کے لیے کوئی نہ کوئی نشانی یا شاہی مہر لگی کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہونی چاہیے، جس سے بادشاہ کے نامزد افراد خاص طور پر قاصد بروقت "آنیا جانیا کر سکیں"، بادشاہ نے وزیر کی پوری بات صبر اور حوصلے سے سنی، اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
بادشاہ کا سر ہلتے ہی شاہی لوہار حرکت میں آگئے، اور یوں دنیا کا پہلا پاسپورٹ سسٹم تیار کرنے کی تیاری شروع ہوئی، شاہی لوہار نے شاہی بھٹیوں میں خالص سونا پگھلا کر خالص سونے کے وزن دار پاسپورٹ سکے بنانا شروع کر دیے، جسے پہلے پہل صرف قاصدوں کو دیا جاتا تھا، جس سے ان کی رسائی دوسری سلطنتوں میں بروقت ہونے لگی۔
سکہ شاہی پاسپورٹ جاری ہوتے ہی برابر برابر سلطنت کے بادشاہوں کے کانوں میں جب اس انوکھی ایجاد کی بھنک پڑی، تو انہوں نے بھی اپنے وزیروں کو ٹاسک دیے، اور یوں تقریباً اس دور کے ہر ملک کے شاہی لوہار اس کام میں جُت گئے، سونے، چاندی، کانسی غرض لوہے تک کے پاسپورٹ تیار ہونے لگے اور ایک نسل کی تیار کردہ یہ سفری چابی جس سے ملکوں ملکوں کے دروازے کھلتے تھے، دوسری نسل کے آتے آتے یہ ایک عام سی پریکٹس ہوگئی اور تیسری نسل نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس میں مزید تبدیلیاں کرکے جدید ترین پاسپورٹی نظام کی بنیاد رکھ دی۔
وہ جس طرح شروع شروع میں ہر سلطنت اپنے خزانے کے وزن کے حساب سے سونے، چاندی، کانسی یا لوہے کے سکے بناتی تھی، ٹھیک اسی طرح آج کی دنیا میں بھی ہر ملک کے پاسپورٹ کی ویلیو سونے، چاندی یا لوہے کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے دنیا بھر کے ایئر پورٹس پر کچھ ممالک کے پاسپورٹس کو احتراماً، تعظیماً اور نفاستاً دیکھا، کھولا اور تولا جاتا ہے، اسی طرح کچھ ملکوں کے پاسپورٹ کو ہاتھ لگا کر ایسے رکھ چھوڑتے ہیں، جیسے چار سو چالیس واٹ کا کرنٹ لگ گیا ہو۔
کچھ روز پہلے لندن کی مشہور فرم ہینلی اینڈ پارٹنرز نے دنیا بھر کے پاسپورٹوں کی رینکنگ جاری کی، تو پاکستان کا نمبر سب سے آخری تین ملکوں کے برابر گنا گیا، جس سے یقینا دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کے دل پر کیا گزری ہوگی، یہ وہ جانیں یا خدا جانے۔
حیرت انگیز طور پر 2006 میں جب پاسپورٹ رینکنگ سسٹم پہلی بار جاری ہوا، تو پاکستانی پاسپورٹ اناسی نمبر پر موجود تھا، جو اس وقت سے اب تک کے تمام حکمرانوں کی "محنت" سے ایک سو تین نمبر پر لڑھک چکا ہے۔
جب پاسپورٹ سسٹم کی پہلی فہرست جاری ہوئی تو اس وقت امریکہ، ڈنمارک اور فِن لینڈ مشترکہ طور پر پہلے نمبر کا تاج پہن چکے تھے، لیکن 2006 کی فہرست میں سنگاپور پہلے جبکہ امریکہ بہادر چھٹے نمبر پر جا چکا ہے۔
ہمارا پڑوسی انڈیا اس نئی لسٹ میں پچیاسی اور بنگلہ دیش ننانوے نمبر پر موجود ہیں، گو کہ یہ پوزیشن بہت اچھی نہیں، لیکن ہم سے بہر حال بہتر ہے۔
پہلی جاری کردہ لسٹ 2006 میں سنگاپور آٹھویں نمبر پر تھا، جو سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے پہلے نمبر پر آچکا ہے، دنیا کے ایک سو ترانوے ملک ہر سنگا پوری کو ایئرپورٹ پر ہی ویزا جاری کرتے ہوئے ویلکم کرتے ہیں، یہ پوزیشن امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس اور یو کے سے بھی بہترین ہے۔
دراصل اس لسٹ میں ملکوں کے نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے لٹکنے کی بنیادی وجوہات بھی بتلائی جاتی ہیں، جس ملک نے بھی اس لسٹ میں اوپر کی طرف سفر کرنا ہے، اسے دوسری قوموں کے ساتھ خوشگوار تعلقات، داخلی سیکیورٹی میں بہتری، معاشی اشاریوں میں بہتری، دوسری قوموں کے ساتھ آسان سفری معاہدے، اور سیاحت کی صنعت کو اولین ترجیح جیسے اقدامات ضروری قرار پاتے ہیں۔
ہم ان اقدامات پر کس قدر محنت کر رہے ہیں، اس بارے میں کسی سرکاری افسر کو تو چھوڑیں، چائے کے ہوٹل پر بیٹھے عام شہری سے پوچھ لیں، وہ دو حرفی جواب دے کر "گل مکا" دے گا، یعنی زیرو بٹا زیرو۔
فہرستی کمپنی کے ڈیزائن کردہ اصولوں کو پوری سنجیدگی سے پڑھنا اور پھر پوری دیانتداری سے عمل کرکے جن ملکوں نے اپنی پوزیشن بہتر سے بہترین کی ہے، اس میں قطر، سعودی عرب اور یو اے ای دبئی وغیرہ سر فہرست ہیں، جو اب اس فہرست میں بہترین پوزیشن سنبھال چکے ہیں۔
دراصل امیر اور ترقی یافتہ ملک غریب یا بے ترتیب ملکوں کے باشندوں کو اس لیے بھی آسانی سے ویزہ فراہم نہیں کرتے، کہ ان ملکوں کے عوام ترقی یافتہ ممالک کے لیے سیکیورٹی کے مسائل، سیاسی و مذہبی پناہ یا زائد المعیاد رہائش (اوور سٹے) میں ملوث ہوتے ہیں، یعنی ویزا تین مہینے کا اور رہنا دس سال ان غریب ملکوں کے عوام کا پسندیدہ مشغلہ ہے، جس سے امیر ملک بچتے پھر رہے ہیں۔
آج سے آٹھ سو سال پہلے منگول بادشاہ کے سونے، چاندی اور لوہے کے دور میں بھی پاسپورٹ کا وزن تجارت، اصول، قانون اور طاقت تھی، اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی پاسپورٹ کو تجارت، اصول، قانون اور طاقت کے معیار پر تولا اور پرکھا جاتا ہے۔
دنیا کے کئی ملکوں نے پچھلی دہائی میں یہ سادہ سے اصول اپنا کر دنیا کے باوقار گروپ میں جگہ بنا لی ہے، حیرت ہے ہمارے بہت ہوشیار اور ذہین فطین سقراطوں کو یہ سادہ سے اصول کیوں سمجھ نہیں آرہے؟