Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Gadhe Pan Se Baaz Aa Jayen

Gadhe Pan Se Baaz Aa Jayen

گدھے پن سے باز آجائیں

باخبر ذرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل محکمہ تحفظ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) نے حکومت سندھ کو ایک مراسلے میں مشورہ دیا، کہ سندھ میں جنگلی حیات کے شکار پر کم از کم دو سال کے لئے پابندی لگا دی جائے۔ حکومت سندھ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے یہ تجویز مان لی اور شکار پر پابندی لگا دی۔

اس مراسلے میں محکمہ وائلڈ لائف نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ گزرے مارچ، اپریل کی شدید ترین گرمی کی لہر، بعد ازاں اس سال کی غیر معمولی شدید بارشیں اور پھر ان شدید بارشوں کے بعد ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے جہاں انسانوں کی بَستیوں کی بَستیاں پیوند خاک کر ڈالیں، وہیں جنگلی حیات کے محفوظ ٹھکانے بھی محفوظ نہ رہ سکے، اور جب تک ان چرند پرند کی پرانی تعداد لوٹ کر نہیں آتی، اس وقت تک شکاری لائسنس جاری نہ کئے جائیں۔

ماہرین نے اس پرانی تعداد تک آنے کے لئے چرندوں پرندوں کو کم از کم دو سال کا وقت دینے کا مطالبہ کیا، تاکہ انڈے بچّوں کا قدرتی اَفزائشی عمل ان دو سالوں میں بلا روک ٹوک جاری رہے، اور تعدادِ چَرند پَرند پرانی ڈگر پر آ جائے۔ محکمہ وائلڈ لائف ہر سال حکومت سندھ کی اجازت سے مقامی اور غیر مقامی شکاریوں کو تین سے چار ہزار کی تعداد میں جال پھنسائی کے شکاری لائسنس جاری کرتا ہے۔ یہ لائسنس شکاریوں کو ان معصُوم اور فِطرت دوست پرندوں کو مار کر بھون کر کھانے اور کچھ کو زندہ پکڑ کر بیرون مُلک فروخت کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس پابندی سے قبل عام طور پر محکمہ وائلڈ لائف لائسنس جاری کرتے ہوئے شکاریوں کو صرف اتوار کے روز شکار کرنے کی اجازت دیتا ہے، یعنی بقیہ چھ دن قانوناً شکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان شکار ناموں میں ایک شرط یہ بھی لکھی ہوتی ہے کہ کوئی بھی شکاری قدرتی پناہ گاہوں (مثلاً چھوٹے جنگل) یا نیشنل پارکس میں شکار نہیں کر سکتا، بلکہ انگلینڈ کے وائلڈ لائف ایکٹ 1981 میں ایسی پناہ گاہوں کو وہیں مقام دیا گیا ہے جو ہر مذہب کے مقدس مقامات کو حاصل ہے۔

یعنی جو بھی اس کے اندر داخل ہو جائے، جان کی اَمان پائے، اسی انگلش ایکٹ میں نہ صرف پرندوں بلکہ ان کے گھونسلوں اور انڈوں کو بھی تحفظ دیا گیا ہے۔ ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق چونکہ نومبر سے فروری تک چار مہینے کا عرصہ نان بریڈنگ سیزن ہوتا ہے یعنی ان مہینوں میں انڈے دینا پھر انڈے سے بچے کے نکلنے کا عمل نہیں ہوتا۔

اور اسی عرصے میں دور دیس کے انتہائی ٹھنڈے علاقوں سے پرندوں کی کچھ اقسام ہجرت کر کے یہاں کے نسبتاً کم سردی والے ماحول میں آ جاتے ہیں، تاکہ دو چار مہینے سکون سے گزار لیں، لیکن ہم چونکہ مہمان نواز مشہور ہیں، اسی لئے ان مہمان پرندوں کو بُھونتے ہوئے تھوڑا سِرکہ اور مرچ مصالحہ زیادہ لگاتے ہیں تاکہ مہمان نوازی کا حق پورے کا پورا ادا ہو۔ ان مہاجر پرندوں کی تعداد آہستہ آہستہ گھٹتی جا رہی ہے۔

لیکن محکمہ وائلڈ لائف اور حکومت سندھ کے پرند بچاؤ اقدامات کے خلاف شکاری بھی ڈٹ گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اندرون سندھ جاتی کے سمندر کے اندر اور ساحلی پٹی پر نایاب قیمتی بازوں کے شکار کے لئے سینکڑوں غیر قانونی کیمپ قائم ہو چکے ہیں، اور ایک ہفتے کے دوران اب تک اٹھارہ قیمتی بحری باز شکار کر کے وہیں کُھلی نیلامی میں دو کروڑ میں فروخت کر دئے گئے ہیں، چونکہ محکمہ وائلڈ لائف اور صوبائی حکومت نے شکار پر پابندی لگا رکھی ہے، اسی لئے شکاریوں نے اس پابندی کا حل فی پرندہ ڈیڑھ لاکھ روپے چائے پانی ادا کر کے نکال لیا ہے۔

یاد رہے کہ ڈیڑھ لاکھ میں اس پرندے کی کراچی تک پہنچ شامل ہے۔ شکاریوں کی طرف سے پیسوں کی ادائیگی اور محافظوں کی طرف سے مال کی کراچی پہنچان پوری ایمانداری سے کی جا رہی ہے۔ اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر شکاری کیوں پابندی کے باوجود معصوم پرندوں کا شکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور قانون کے رکھوالے کیوں انہیں نہیں روک پا رہے؟ تو اس سوال کا سیدھا سادا جواب تو ہے "پیسہ"، اور اس جواب کی تفصیل سمجھنے کے لئے ایک اور خبر کا چھوٹا سا حصہ بھی پڑھ لیں۔

"ابوظہبی کی انٹرنیشنل ہنٹنگ اینڈ ایکو اسٹرین ایگزیبیشن جسے "ADIHEX" کے مختصر نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نمائش کا باز کے شوقین اور باز پال کر بیچنے والے انتہائی شدت سے انتظار کرتے ہیں، اس سال اس نمائش میں ایک سفید رنگ کا امریکی باز دو لاکھ 75 ہزار امریکی ڈالرز میں فروخت ہوا، پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً ساڑھے چھ کروڑ روپے بنتی ہے، یہ سودا جاری نمائش کے چھٹے روز ہوا، اور اس سودے نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئے۔

ویسے بھی امریکن سفید باز ہی نہیں اکثر امریکن سفید "چیزیں" ہمارے عرب شہزادوں کا من بھاتا کھاجا ہیں۔ اور ان کو حاصل کرنے کے لئے درہم و دینار کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ بھلا جب ایک پرندہ بیچ کر ہی زندگی کے دکھ درد دور کئے جا سکتے ہوں، تو کون کم عقل ان حکومتی و محکماتی پابندیوں کی پرواہ کریگا۔ بغیر محنت کے پیسے کا حصول چونکہ ہمارا قومی تشخص بنتا جا رہا ہے، اس لئے ہم ماحول دوست جنگلی حیات کو تو چھوڑ، پالتو جانوروں کو بھی چھوڑنے کو تیار نہیں، ایسی چرندہ پرندی چھینا جھپٹی سے جڑی ایک اور خبر کا کچھ حصہ بھی دیکھ لیں۔

تھر پارکر کے علاقے اسلام کوٹ کے قریب تھرکول بلاک دو سے گدّھوں سے بھرا ٹرک جو کراچی لایا جا رہا تھا، مِٹھی کے قریب فانگھاریو پولیس پوسٹ پر پولیس نے خفیہ اطلاع پر پکڑ لیا۔ گدھے اور ٹرک پولیس کی تحویل میں ہیں۔ تین افراد کو حِراست میں لے کر مِٹھی تھانے منتقل کر دیا گیا ہے، مقامی لوگوں نے پولیس کی اطلاع پر تھانے جا کر گدھا شناسی کی، اور مزید دُہائی دی کہ ہمارے مزید جانور اور گدھے اب بھی لاپتہ ہیں۔ علاقہ ایس ایچ او صاحب نے مزید گدّھوں کی بازیابی کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

چاہے کچھ بھی ہو جائے، حکومتی پابندی تار تار کرنی پڑے یا معاشرے میں اپنی عزت تار تار ہو جائے، ہم نے اپنے "گدھے" پن سے "باز" نہیں آنا۔

Check Also

Quaid e Azam Ki Mehbooba

By Muhammad Yousaf