Front Seat Ka Jhagra
فرنٹ سیٹ کا جھگڑا
فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا شوق اور مسئلہ برصغیر اور خاص طور پر پنجاب کا تاریخی مسئلہ ہے، پنجاب کے دیہاتوں کو تو چھوڑیں، شہروں کے رہنے والے تک اس بیماری میں شدت سے مبتلا ہیں، کوئی لمبا سفر ہو، یا چھوٹا، شادی بیاہ، بارات یا کوئی اور تقریب، ہر شخص کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ فرنٹ سیٹ پر اسے ہی بٹھایا جائے۔
بعض اوقات فرنٹ سیٹ کے امیدوار ایک سے زیادہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ بنتا ہے، تو کوئی زیرک بزرگ دوسرے امیدوار کو کہتا ہے، "چل بیٹا تو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جا"، "آہ، لوگ مجھے ڈرائیور اور ساتھ بیٹھے ہوئے کو صاحب سمجھیں گے"، دوسرا امیدوار نفرت سے پیش کش کو مسترد کر دیتا ہے، اسکی ایک وجہ ڈرائیونگ بھی ہوتی ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر پوری ذمہ داری سے گاڑی چلا کر منزل مقصود پر پہنچانی ہوتی ہے، جبکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا بغیر کسی ذمہ داری کے باہر کے نظارے دیکھ رہا ہوتا ہے، بعض اوقات فرنٹ سیٹر ٹانگ پر ٹانگ بھی چڑھا لیتا ہے۔ جس سے فرنٹ سیٹ کا نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔
جس طرح معاشرہ فرنٹ سیٹ کو پسند کرتا ہے، اسی طرح پاکستان میں طاقتور تکون (اسٹیبلشمنٹ، عدالت پارلیمنٹ) ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ فرنٹ سیٹ کس نے سنبھالنی ہے؟ عدالت نے کچھ روز قبل ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کو عدالت طلب کر کے ایک بار پھر جسٹس منیر کی یاد تازہ کروا دی ہے، اور اپنی طاقت کا پیغام دیا ہے کہ ہم جب چاہیں آپ لوگوں کا بازو مروڑ سکتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی فرنٹ سیٹ کی خواہش کے جواب میں مخالفین صرف ایوب، یحیٰ، ضیاء اور جنرل مشرف کا نام بھی لے لیں، تو بات دلیل سے آگے بڑھ کر ٹھوکر اور ٹھاکر تک جا پہنچتی ہے، اور کبھی کبھی تو کوئی اتھرا پستول لے کر وزیراعظم کے سر پر ہی رکھ لیتا ہے، سمجھ دار وزیراعظم اس موقع پر چپ چاپ باہر نکل لیتے ہیں، کیوں کہ اندر کا ماحول گرم اور باہر کا ٹھنڈا ہوتا ہے، اور ٹھنڈی فضا میں سانسیں لینے سے سنا ہے پھیپھڑوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
سیاستدان بھی اپنے آپ کو فرنٹ سیٹ کا اصل حقدار تو سمجھتے ہیں، لیکن جب بھی پاور میں آئیں یا اسمبلی میں طاقتور ہو جائیں، تو اپنے اصل کام قانون سازی کے بجائے یہ بھی دوسروں کے کان مروڑنے اور بازو مروڑنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اپنا اصل کام قانون سازی پوری باریک بینی سے کر دیں تو کان اور بازو مروڑنے والے ہمیشہ کے لئے فرنٹ سیٹ ان کے حوالے کر دیں۔
حالیہ مہینوں میں بھی فرنٹ سیٹ کی خواہش میں ڈالر، سونا اور اسٹاک مارکیٹ اسطرح لیٹ گئے جیسے کوئی اچھا بھلا بندہ خود چل کر قبر میں لیٹ جائے۔ ان تینوں جنسوں کا کاروبار کرنے والے اجڑے، تو اپنے ساتھ کئی کاروباروں کو بھی کینسر زدہ کر گئے۔ چونکہ ہر کاروبار کئی کاروباروں سے جڑا ہوتا ہے، ایک کی تندرستی دوسرے کی صحت مندی اور ایک کی بیماری دوسرے کو بھی ادھ موا کر دیتی ہے۔
عام آدمی کی حالت کو تو اب سب نے سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے، وہ مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں، اسے آٹا، گھی، چینی، بجلی و گیس کے بل اور بچوں کی فیسوں کی مصیبت سے آزادی ملے تو ادھر اُدھر دیکھے، وہ جو پرانا محاورہ ہے، "کولہو کا بیل" اس کی تشریح دیکھنی ہو تو کسی عام پاکستانی کو دیکھ لیں، جو اب لفظ امید سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔
اگر کبھی طاقتوروں، منصفوں اور سیاستدانوں کے کسی گروہ کو مشترکہ توفیق ملے تو پاکستان کے ہر شہر میں موجود سفارت خانوں کے باہر لگی لمبی لائنوں کا نظارہ کریں، یہ لائینیں اب اتنی لمبی ہوتی جا رہی ہیں کہ آٹھ آٹھ مہینے یا ایک ایک سال کے بعد درخواست کا نمبر آ رہا ہے، اگر پاکستانی ریاست اپنے بچوں کو دودھ پلانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو یہ بچے ماں کو چھوڑ کر پرائی ماں کو کیوں ماں بنانا چاہ رہے ہیں؟
اسی تکونی گروپ کو اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہئیے کہ ماں تک کو تبدیل کرنے پر آمادہ نوجوانوں کی امید کو ضرب لگانے والے آخر کون ہیں؟ فرنٹ سیٹ کی خواہش کریں، اسکے مزے بھی لیں لیکن گاڑی تو راہ گیروں کو دیکھ کر چلائیں، اس بے سمت گاڑی کی زد میں آ کر راہ گیر کچلے جا رہے ہیں، مارے جا رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں لیکن فرنٹ سیٹ پر کس نے بیٹھنا ہے اس کا فیصلہ پچھتر سالوں میں نہیں ہو پا رہا۔