Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Farzand e Nazimabad

Farzand e Nazimabad

فرزندِ ناظم آباد

تین جولائی انیس سو پچاسی کو مشہور امریکی فلم "بیک ٹو دی فیوچر" ریلیز ہوئی، ریلیز ہوتے ہی یہ فلم باکس آفس پہ چھا گئی، اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی چلی گئی، 19 ملین امریکن ڈالر سے بنی اس فلم نے مجموعی طور پر 390 ملین ڈالر کا بزنس کرکے اپنے ساتھ ریلیز ہوئی نہ صرف امریکن بلکہ دنیا کی تمام فلموں کو پَچھاڑ کر رکھ دیا۔

سن 1985 کے سال، یہ پوری دنیا کی بیسٹ بزنس فلم رہی۔ 2007 میں امریکن کانگریس مینز پر مشتمل "لائبریری آف کانگریس" نے اسے "نیشنل فلم رجسٹری" میں آرٹ کے نمونے کے طور پر محفوظ کرنے کے لئے منتخب کرلیا۔

جس طرح بیک ٹو دی فیوچر میں فلم دیکھنے والا اچانک کئی سال پیچھے چلا جاتا ہے، اور ماضی کے تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا، اپنے خیالوں میں سوچتا اور اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، اُسی طرح معروف صحافی، دانش ور، محقق اور تاریخ دان محترم شاہ ولی اللہ جنیدی کی کتاب "شِکستہ تہذیب" بھی ہمیں اِس تیز رفتار دور سے بہت پیچھے ایک پُر سکون، کم گنجان، ہنگامہ خیزی سے پَرے، ہرے بھرے ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کے بلکل ابتدائی دنوں میں لے جاتا ہے۔ قاری کتاب پڑھتے پڑھتے جب اس دور میں پہنچتا ہے تو اس دور کی سحر انگیزی میں اس طرح کھو جاتا ہے، کہ کتاب کے ورق خود بخود ماضی کے جھروکوں کو کھول کھول کر کسی فلم کی سلائیڈز کی طرح پیش کرتے جاتے ہیں۔

آج کا ناظم آبادی حیرت سے اس ناظم آباد کو ٹِکٹِکی باندھ کر دیکھتا جاتا ہے، جو کبھی علم و ادب کا شاندار گہوارہ تھا، پھر نہ جانے اس کو کون کون سے مافیا کی نظر لگ گئی کہ پھولوں، باغوں اور تہذیب کا یہ منبع کنکریٹ، کچرے اور بد تہذیبی کا مرکز بنتا چلا گیا، پچھلے دور کے ناظم آبادی یا تو اس علاقہِ لاوارث کو چھوڑ کر چلے گئے، یا سرگوشیوں میں بتلاتے ہیں، کہ یہ وہ ناظم آباد نہیں جس میں ہم نے اپنا وقت بِتایا، اور کچھ تو "اِس" ناظم آباد میں"اُس" ناظم آباد کا سکون ڈھونڈتے ڈھونڈتے ابدی سکون کی جگہ جا پہنچے۔

شکستہ تہذیب کو ایک کتاب کہنا اس تصنیف کی عرق ریزی کے ساتھ زیادتی ہوگی، اگر اسے ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کی آرکائیو (دستاویزی ثبوت) کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔

وہ جس طرح شراب کو زیادہ نشیلا بنانے کے لئے کئی شرابوں کو ملانا پڑتا ہے، اسی طرح پچھلی کئی دہائیوں کے واقعات کی جمع گردی میں زمانے بھر کی کتابوں، رسائل اور اخبارات کی ورق گردانی نے اس کتاب کے نَشیلے پَن کو دو آتشہ کر چھوڑا ہے، جبھی تو یہ ہاتھ میں آتے ہی چھٹتی نہیں ہے کافر، پھر نہ وقت کا پتہ، نہ کام کی جلدی، اور نہ کھانے پینے کا ہوش۔

کتاب میں دلچسپ واقعات قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں، کچھ مشہور واقعات جنہیں پڑھ کر قاری خوشگوار حیرت کا شکار ہوجاتا ہے، وہ یہ ہیں۔

ناظم آباد کی پرانی بیکری سبحان اللہ بیکری کا افتتاح فلم اسٹار "محمد علی" اور "زیبا" نے کیا تھا۔

ممتاز سول سرونٹ، شاعر، فلم ساز، ناول نگار اور جگر مراد آبادی کے شاگرد فضل احمد کریم فضلی کا گھر بھی ناظم آباد میں"بیت الغزل" کے نام پر تھا۔ ان کی فلم میں پہلی بار محمد علی، زیبا اور کمال ایرانی متعارف کروائے گئے۔ اس فلم کا افتتاح کراچی کے نشاط سینما میں"مادرملت محترمہ فاطمہ جناح" نے کیا تھا۔

فلم اسٹار "سنگیتا" اور "کویتا" کے والد کا گھر بھی ناظم آباد میں تھا، "کویتا" کی پیدائش بھی اسی گھر میں ہوئی تھی۔

ممتاز جاسوسی ناول نگار "ابن صفی" بھی ناظم آباد کے رہائشی تھے۔

27 دسمبر 1970 کو مرزا غالب کی سو سالہ تقریب کے موقع پر مشہور زمانہ شاعر "فیض احمد فیض" اور دانش ور "ظفرالحسن" نے حبیب بینک کے تعاون سے "غالب لائبریری" کی داغ بیل ڈالی، اس لائبریری میں"جوش ملیح آبادی"، "فیض احمد فیض"، "مجنوں گورکھپوری"، "ابن انشاء"، "ابراہیم جلیس"، "احمد ندیم قاسمی"، "ابو الفضل صدیقی"، "محسن بھوپالی' اور "صادقین" جیسے لوگ ادبی محافل سجایا کرتے تھے۔ واہ رے ناظم آباد کی غالب لائبریری کی قسمت اور "تاریخ" اور "آج"، واللہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

ناظم آباد ایک نمبر میں معروف سوز خواں امام باندی عرف کجن بیگم اور ان کی صاحب زادی عالمی شہرت یافتہ گلوکارہ "مہناز بیگم" رہا کرتی تھی۔ اسی علاقے میں ایم کیو ایم کے پہلے سیکریٹری اطلاعات "امین الحق" کی رہائش گاہ بھی تھی۔

دنیا کی کامیاب ہائی جیکنگ کے اہم کردار ہائی جیکر "سلام اللہ ٹیپو" نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی اس علاقے میں بسر کی۔

ضلع وسطی میں گجر نالے کے عقب میں برصغیر کے معروف محدث اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کے معاصر مولانا وصی احمد محدث سورتی کے پوتے مشہور عالم دین حکیم احمد پیلی بھیتی کی رہائش گاہ "پیلی بھیت ہاؤس" کے نام سے مشہور تھی۔

ہمارے انتہائی محترم اور عزیز ممتاز شاعر و محقق "خواجہ رضی حیدر" جو نارتھ ناظم آباد بلاک ایم میں رہائش پزیر ہیں، حکیم قاری احمد پیلی بھیتی کے فرزند ارجمند ہیں۔

آسٹریلیا کے ممتاز کرکٹر عثمان خواجہ اپنے خاندان کے ہمراہ یہاں رہا کرتے تھے۔ ان کے گھر کا نام "خواجہ ہاؤس" تھا، بعد ازاں ان کا خاندان پہلے اسلام آباد اور پھر آسٹریلیا منتقل ہوگیا۔

برصغیر کی تاریخ کے ایک اہم کردار "بھوپت ڈاکو" ناظم آباد نمبر تین میں رہائش پزیر تھے، پچاس کی دہائی میں انڈین حکومت نے بھوپت ڈاکو پر دو سو سے زائد افراد کے قتل اور ڈکیتیوں کا الزام لگایا اور ان کی گرفتاری پر پچاس ہزار روپے انعام رکھا، جو اس دور کے حساب سے بہت بڑی رقم تھی۔

بھوپت ڈاکو برہمن سرداوں سے دولت لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کردیتا تھا۔

بھوپت ڈاکو سرحد پار کرکے پاکستان آیا اور کچھ عرصہ جیل میں رہ کر رہائی کے بعد مسلمان ہوگیا اور دودھ کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ ان کی شادی ایک مسلمان خاتون حمیدہ بانو سے ہوئی، جس سے اُن کی سات اولادیں پیدا ہوئیں۔ بھوپت ڈاکو کا اسلامی نام امین یوسف تھا اور 1996 میں ان کا انتقال ہوا۔

ممتاز شیعہ عالم دین علامہ رشید ترابی کی دوسری صاحب زادی ایلیا ترابی کی شادی کا تذکرہ کسی یادگار سے کم نہیں، ایلیا ترابی کا عقد 11 ذیقعدہ 1963 کو نواب آف خیرپور میر مراد علی تالپور سے ہوا تھا۔ ایلیا شادی کے بعد بیگم صاحبہ ایلیا تالپور کہلاتی تھیں۔

اس یادگار شادی میں سابق کمشنر سید ہاشم رضا، کراچی پولیس چیف کاظم رضا، سمیت کئی وفاقی وزرا نے شرکت کی تھی۔

شادی میں شریک ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر اور سینئر صحافی عابد علی سید کے مطابق شادی کی تقریب میں روائتی کھانوں کے علاوہ حیدر آباد دکن کی مشہور سوغاتیں بگھارے بینگن، اچار بھنڈی، مسالہ بھری مرچیں، خوبانی کا میٹھا اور کئی اقسام کے مُربّے اور چٹنیاں شامل تھیں۔

فروری 1963 میں ایک انگریز خاتون مسز پولین ڈیوس ناظم آباد کے نوجوان سعید کی محبت میں گرفتار ہوکر انگلینڈ سے جرمنی، وہاں سے بذریعہ ٹرین ترکی، ترکی سے بذریعہ ٹیکسی تہران، تہران سے کویت اور کویت سے کراچی بذریعہ کویت ائیر ویز پہنچی، علاقہ پولیس نے سعید کو اغوا کے کیس میں گرفتار کرلیا، لیکن انگریز عورت کے بیان کے بعد رہا کردیا۔ مسز پولین ڈیوس نے پولیس کو بیان دیا کہ جہاں میرا چاہنے والا رہیگا، میں بھی وہیں رہوں گی۔

ناظم آباد کی مشہور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا افتتاح 27 نومبر 1991 کو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کیا تھا۔

ناظم آباد و نارتھ ناظم آباد کی مشہور شخصیات، مشہور پکوان، مشہور صحت کے مراکز، کھیل کے میدان، باغ باغیچے، لائبریریاں، کھیل، کھلاڑی، سیاست، سیاسی شخصیات، سیاسی تنظیمیں، سیاسی جھگڑے، لسانی لڑائیاں، مشہور شاعر، ہوٹل، بیکریاں، کھانے پینے کے ڈھابے سے لیکر تمام اہم مراکز، بوہری برادری، یہودی خاندان، فحاشی کے اڈے، مشہور سڑکوں کے نام، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، سیاسی گھرانے اور نہ جانے کیا کیا۔

کس کس سال کیا کیا ہوا، کون کون سی قیامت کب کب ٹوٹی، کون کون سی خوشی ہمیں کب کب نہال کر گئی، اچھا برا ہر واقعہ اس کتاب کی زینت ہے، کتاب کا ورق ورق ناظم آباد کے شاندار ماضی، تہذیب یافتہ باسیوں اور علم و آگہی کا مرکز ہونے کی گواہی دیتا ہے۔

کتاب پڑھتے پڑھتے آپکا گزر ناظم آباد میں کھانے پینے کی مشہور جگہوں سے بھی ہوگا، یہی کتاب آپکو مُلّا احمد حلوائی، مُلّا چاٹ والے، دہلی مسلم کباب ہاؤس، کیفے ذائقہ، الحسن کافی ہاؤس، آغا جوس، ممتاز کی نہاری، رشید کا قورمہ، اسلم بیکری، سبحان اللہ بیکری، عاصم اللہ والا بریانی، اور بابو برگر جیسے کھانوں کے مراکز سے بھی ہوگا، ان سب کا نام پڑھ کر دوران مطالعہ منہ میں پانی بھر بھر آئیگا، اور کھانوں ڈھابوں کی مہک، تازگی اور سُوندھاپن آپکے دماغ تک کو معطر کردیگا۔

کتاب کو پڑھتے پڑھتے آپکی ملاقات اداکار ندیم، محمد علی، زیبا، نشو، بدر منیر، غلام علی الدین، لہری، افشاں قریشی، معین اختر، جمشید انصاری، عشرت ہاشمی، زینت طاہرہ، مظہر علی، فیصل قریشی، ساجد حسن، سہیل رانا، خوبرو شکیل اور اپنے وقت کے مقبول ترین اداکاروں فنکاروں سے بھی ہوتی چلی جائے گی۔

یہ کتاب نہیں ناظم آباد و نارتھ ناظم آباد کے متعلق ایک مکمل تحقیقی دستاویز ہے، جسے نہ صرف ناظم آبادیوں کے گھروں بلکہ پاکستان بھر اور دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں کی بُک شیلف کا حصہ ضرور بننا چاہئیے، کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے بارے ایسی نادر کتاب دَیکھی نہ سُنی۔

پچھلے دنوں ہمارے دوست وقار متین کی نگرانی میں سجنے والا کراچی کتاب میلہ جسکی شہرت اب کراچی سے نکل کر مُلک بھر میں پھیل چکی ہے، اس میلے میں بھی ولی بھائی کی اس کتاب نے کئی اسٹالوں پر اپنی بہار دکھائی، اور بہترین فروخت ہونے والی کتابوں میں جگہ بنائی۔

شاہ ولی اللہ جنیدی، معروف تعلیمی روحانی، سماجی اور تحقیقی شخصیت سید شاہ محمد خلیل اللہ جنیدی کے فرزند ہیں، عظیم والد کے لائق فرزند نے جسطرح والد کے نام کو چار چاند لگائے، ایسی مثالیں اپنے معاشرے میں خال خال ہی ملتی ہیں، ویل ڈن ولی بھائی۔

اپنے رہائشی علاقے سے محبت اور تحقیق کا یہ عالم دیکھا نہ سنا، ولی بھائی بجا طور پر اپنی اس کاوش پر "فرزند ناظم آباد" کہلانے کے مستحق ہیں۔

Check Also

Siyasi Adam Istehkam Ka Bayaniya

By Irfan Siddiqui