Farmi Anda Ya Sone Ka Anda
فارمی انڈہ یا سونے کا انڈہ
آج کل کراچی کے کوئٹہ پٹھان ہوٹلوں پر انڈے پراٹھے کے لیے لگی لائنیں مسلسل سکڑتی جا رہی ہیں، یہ سکڑاؤ پچھلے تین چار سال سے مسلسل جاری ہے، اور اگر انڈے کی قیمتوں میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو عام آدمی تو شاید یہ "عیاشی" نہ کر سکے، پھر یہ پروٹین سے بھری نعمت بھی صرف "خان"، "میاں"، "سائیں"، "مسٹر" اور "مولانا" کے دسترخوان کی زینت بن سکے گی، ہاں ان لوگوں کے علاوہ عام لوگوں میں صرف کراچی کے "ڈکیت" ہی اس نعمتِ غیر متبرکہ سے محظوظ ہو سکیں گے، وہ پہلے ہی دورانِ ڈکیتی گھی، تیل، آٹا، چینی بھی بھر کر لے جاتے ہیں، کہ حالات خراب ہیں۔
اب سے کچھ عرصہ پہلے تک انڈا پراٹھا کراچی کا سستا اور من پسند ناشتہ ہوا کرتا تھا، بیس روپے کا انڈہ، پندرہ کا پراٹھا اور پندرہ بیس روپے کی چائے، پچاس ساٹھ روپے میں پیٹ اور جیب دونوں بھرے بھرے لگتے تھے۔
آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے ساٹھ کی دہائی میں پاکستانی کمپنی "پی آئی اے" اور کینیڈین کمپنی "شیور" میں جدید مرغی خانے بنانے کا ایگریمنٹ ہوا، اس ایگریمنٹ کا سبب آبادی میں تیزی سے بڑھوتری بنا، جب حکومتِ وقت نے محسوس کیا، کہ آبادی میں تیز رفتار اضافے سے آئندہ سالوں میں ملک میں انڈے اور گوشت کی طلب میں اتنا زیادہ اضافہ ہو جائے گا کہ اس کی طلب کے مقابل رسد ممکن نہیں ہو سکے گی اور گوشت و انڈے کی آئیندہ قلت میں کمی کا واحد حل جدید فارمنگ سامنے آیا۔
حکومت وقت نے اس بڑے مستقبلی مسئلے کے حل کے لیے پاکستانی کمپنی "پی آئی اے" کو ٹاسک سونپا، جس نے کینیڈین کمپنی "شیور" کے اشتراک سے جدید ترین فارمنگ کا آغاز کیا، آج بھی پرانے لوگ دکانوں سے فارمی انڈے خریدتے وقت "شیور کا انڈہ" یا "پی آئی اے" کا انڈہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں جب پہلی بار فارمی انڈے مارکیٹ میں آئے، تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا، بعض دین داروں نے اس انڈے کو "حلال" تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اس حلالی انکار کی وجہ ان دین داروں نے یہ بتائی کہ یہ انڈہ چونکہ مرغی مرغے کے ملاپ سے نہیں بلکہ اس فیڈ سے بنتا ہے، جو مرغی کو کھلائی جاتی ہے، چنانچہ یہ انڈہ حرام ہے، بعض ترقی پسند دین داروں نے اس انڈے بارے فتویٰ دیا کہ حرام نہ سہی مکروہ ضرور ہے۔ ہو سکتا ہے ان دین داروں کے اذہان میں یہ بات بھی آئی ہو، کہ اگر آج بغیر مرغے کے انڈہ پیدا ہو سکتا ہے، تو کل کلاں کو بغیر مرد کے بَچّے بھی پیدا ہونے نہ شروع ہو جائیں، پھر ہمارا کیا ہوگا کالیا۔
فارمی انڈے کی موجودہ طلب اور رسد میں فرق اور اسکی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی ماہرین تو کئی وجوہات بتلاتے ہیں، لیکن دو وجوہات جو زبان زدِ عام ہیں، ایک اسکی پڑوسی ممالک کو برآمد یا اسمگلنگ، اور دوسری اس انڈسٹری سے متعلق حکومتی سَرد مُہری۔ پہلی وجہ افغانستان کو برآمدی انڈے سے متعلق ہے، جسکو نہ فارم مالکان اور نہ ہی انتظامیہ بند کرنا چاہتی ہے، کیونکہ یہ برآمدی دونوں کی جیبوں کو گرم اور بینک اکاؤنٹس کو توانا رکھتی ہے۔
پھر اگر ایک تاجر کو کراچی، لاہور، ٹنڈوآدم یا چیچو کی ملیاں سے فی انڈہ بیس یا پچیس روپے ملیں، اور اسی انڈے کو سرحد پار تیس یا چالیس روپے میں تولا جائے، تو کون سا تاجر اتنا عقل مند ہوگا، کہ انڈے کو مقامی خریدار کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟ پھر بارڈر پر قانونی یا غیر قانونی طریقے سے یہ بنیادی ضرورت کی شے آگے پیچھے ہو جائے تو کسی نگران کو کیا، ویسے بھی انڈے کی انرجی سے زیادہ روپوں کی انرجی ہوتی ہے، اس بات پر بادشاہ سے لے کر فقیر تک سب متفق ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ایک انڈے میں عموماً پچاس سے ستر کیلوریز ہوتی ہیں، یہ ان کے سائز کے حساب سے ہوتی ہے۔ لیکن یہی کیلوری اوسط اُبلے ہوئے انڈے میں 320، آملیٹ میں 325 اور دودھ کے ساتھ بنانے پر 245 کیلوریز تک بڑھ جاتی ہیں۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ایک انڈہ روزانہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے خطرات سے دوچار لوگوں کو ان بیماریوں سے بچاؤ کے لئے قوت مدافعت عطا کرتا ہے۔
HDC نامی کولیسٹرول جو گُڈ کولیسٹرول کہلاتا ہے، اور انسانی جسم کے لیے بہت ضروری ہے، دل کے ابتدائی خطرات، اسٹروک اور دوسرے دل کے امراض میں قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔ صرف دو انڈے روزانہ چھ ہفتے کھانے سے ایچ ڈی سی لیول دس فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ آنکھوں کی بینائی میں اضافہ، پروٹین کی اچھی سورس کی حامل یہ چھوٹی سی خدائی نعمت ایک مکمل کھانا بھی ہے۔ گھر میں اپنے مطلب کی چِیز نہ پَکنے پر جَب بَچّے ضِد کر جائیں، تو مائیں اسی انڈے سے بَچّے کو اسکی پسند کی چیز بنا کر بہلا لیتی ہے۔
دنیا بھر میں انڈہ 30 سے 35 طریقوں سے بنایا اور کھایا جاتا ہے۔
حیرت ہے کہ حکومت تاجروں سے اور تاجر حکومت سے دونوں اسکی قیمت میں کمی کے لئے اقدامات کا ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں عوام کبھی حکومت، کبھی فارم مالکان اور آخر میں انڈے کی قیمت کی طرف دیکھ کر شرم سے انڈے سے ہی نظر ہٹا لیتے ہیں۔
لگتا ہے اس بار سردیوں میں ہم ایک اور پرانی روایت "گرم آنڈے" والی آواز سے بھی محروم ہو جائیں گے۔