Daketi Ke Faide
ڈکیتی کے فائدے
سیٹھ رام لال کہنے کو تو کریانے کا بیوپاری تھا، لیکن کُچھ پڑھا لِکّھا ہونے کی وجہ سے پوری مارکیٹ میں مُعتبر مانا جاتا تھا، اسی لیے بازار کی کمیٹی کا صدر بھی تھا۔ شہر کے مختلف حِصّوں میں پَے دَر پَے ڈکیتی کی وارداتیں ہونے کی خبروں پر پوری مارکیٹ میں ڈھیروں تبصرے روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے تھے، کہ اچانک ایک دن اِسی مارکیٹ میں کرم سنگھ برتن والے کی دکان پر دن دہاڑے ڈکیتی ہوگئی، دو، دو لونڈے دو موٹر سائیکلوں پر آن دھمکے، اور آن کی آن میں کرم سنگھ کا پیسوں کا گَلّہ اور موجود گاہکوں کی جیبیں خالی کرکے یہ جا وہ جا۔
بیچارہ کرم سنگھ اگلے تین روز گھر میں بخار میں تَپّ کر پڑا رہا، اِس دوران اس کا بڑا لڑکا دکان کھول بند کرتا رہا۔ ابھی کرم سنگھ کی دکان لُٹے تیسرا دن ہی تھا کہ ویرجی سنار زد میں آ گیا، وہی چار لونڈے، اور 2 موٹر سائیکلیں، بیچارے ویرجی کے سجے سجائے شوکیس سے طلائی ہار، کنگن، موٹے اصلی کڑے اور سُچے موتیوں سے بھرے زیورات حرامی منٹوں میں لے اڑے، ویرجی کا شوکیس بیوہ عورت کی بے کنگن کلائی کی طرح منہ چِڑانے لگا۔
ہفتے بھر میں دو ڈکیتیوں نے پوری مارکیٹ میں سراسیمگی پھیلا دی، پہلے دوسروں کی خبروں پر تبصرہ کرنے والے خود زیر تبصرہ ہوئے، تو مل کر سیٹھ رام لال کے پاس جا بیٹھے۔ "اجی آپ کے تعلقات کا کیا فائدہ، میں تو اُس دن سے اب تک تپ رہا ہوں"، بوڑھا کرم سنگھ بات کرتے کرتے کانپنے لگا۔ "لیکن سیٹھ صاحب میں تو منٹوں میں کنگال ہوگیا"، ویرجی سنار یہ بات سُناتے سُناتے قریب تھا کہ رو دیتا، پاس بیٹھے لالہ کرشن نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دلاسہ دیا۔
سیٹھ رام لال نے حُقّے کا لمبا کش لگایا، گاؤ تکیے سے ٹیک اٹھائی اور سیدھا بیٹھ گئے، "مجھے دونوں واقعات کا بہت زیادہ دُکھ ہوا ہے، لیکن نقصان دُکھ سے پورا نہیں ہوتا، آپ لوگ رائے دیں، میں آگے لگنے کو تیار ہوں"۔ "اجی یہ پولیس کس مرض کی دوا ہے، موٹی موٹی تنخواہیں اور لمبی لمبی گاڑیاں لے کر بھی تحفظ نہیں کر پا رہے، تو بہتر ہوگا، سرکار یہ محکمہ ہی بند کر دے"، نوجوان وجے کمار کی آواز میں جوانی کا جوش نظر آ رہا تھا۔ "ٹھیک ہے، ابھی صبح کے آٹھ بجے ہیں، میں ایک گھنٹے بعد پولیس اسٹیشن جا کر بڑے تھانے دار سے بات کرتا ہوں"۔
"آئیے آئیے رام لال جی، کیسے تشریف لائے، ہمیں حکم کرتے ہم وہاں آ جاتے"، پولیس اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی چھوٹے تھانے دار شام لال نے آؤ بھگت کرتے ہوئے کہا، شام لال چھوٹا تھانے دار اس علاقے میں کئی برسوں سے تعینات تھا، اور رام لال کا دُور پَرے کا رشتہ دار بھی تھا، شاید اس کی خالہ کی ساس کی نند کے بیٹے کے بھانجے کی بیوی کی بھتیجی اس کے سالے کی بیوی کے بھانجے سے بِیائی ہوئی تھی، یہ رشتہ اتنا گُنجل دار تھا، کہ رام لال کبھی بھی اس اُلجھی ڈور کا سِرا ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔
"شام لال، مجھے بڑے تھانے دار سے بات کرنی ہے، بہت ہوگیا، یعنی اب ہمارے ساتھ بھی"، رام لال قدرے خَفگی سے بولنے لگا۔
"اَرے اَرے بَھیّا، آپ بلاوجہ بلڈ پریشر ہائی کر رہے ہیں، اصل مُدعّا تو بتائیے"، شام لال نے پانی کا گلاس پیش کرتے ہوئے دلاسہ دیا، اس کے چہرے پر عادی کمینوں والے سارے شواہد نظر آ رہے تھے۔
"دیکھو اسی ہفتے ہماری مارکیٹ میں دو ڈکیتیاں ہوئیں، اور ڈکیت اُن کی برسوں کی کمائی منٹوں میں لوٹ کر لے گئے"، رام لال نے پانی کا گلاس ایک ہی گھوٹ میں حلق میں انڈیل دیا۔
"دیکھیں بھائی صاحب میری بات کا برا مت مانیے گا، پانی آپ نے پی لیا ہے اب حوصلے اور صبر سے ذرا میری بات بھی سن لیجئے"، شام لال گویا ہوا۔
"کہو"، رام لال نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
"دیکھیں بھائی صاحب، ڈکیتی سے اگر کوئی نقصان ہوتا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ بھی ہوگا، اگر ڈکیتیاں بہت ساری ہو رہی ہیں، تو اس کے فائدے بھی بہت سارے ہیں، لیکن عوام اس فائدے کی طرف کبھی نہیں دیکھتی"۔ "اب دیکھیں ناں، پہلے عورتیں کئی کئی تولے کے اصلی زیور پہن کر باہر نکلتی تھیں، اب یاں انہوں نے سونا پہننا چھوڑ دیا ہے، یا نقلی زیور پہن لیتی ہیں، بیچارے ڈاکو بھی سناروں کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں"۔
"اور سنیں، پہلے ہر آدمی اوپری جیب میں لمبا مہنگا موبائل ڈال کر گھومتا تھا، اب چھوٹا موبائل سامنے اور مہنگا موبائل نہ جانے کہاں چھپا کر رکھتے ہیں"۔ "اب سارے دکاندار پیسے اچھی طرح مختلف جگہوں پر سنبھال کر یا چُھپا کر رکھتے ہیں، پہلے ایسے ہی سامنے رکھے ہوتے تھے، نوٹوں کی گَڈّیاں دیکھ کر تو اچھے بھلے شریف آدمی کی رال بھی ٹپکنے لگتی ہے"۔ "اب یہ بھی دیکھیں، شریف آدمی کو تو چھوڑیں، لڑکے بالے بھی اپنی موٹر سائیکلیں صاف ستھری چَمکا کر نہیں رکھتے، بلکہ گَندی مَندی اور مَیلی رکھتے ہیں، ڈاکو ایسی میلی بائکوں کو میلی نظر سے بھی نہیں دیکھتے"۔
"آپ گاڑیاں دیکھیں، جب سے یہ چھینا جھپٹی شروع ہوئی ہے، بڑے بڑے تاجر چھوٹی اور سستی گاڑیوں میں گھومتے نظر آتے ہیں"۔
"ہوں، تو تمہارا خیال ہے کہ ڈکیتیاں ہوتی رہنی چاہیے"، رام لال نے کرسی کی پشت چھوڑ کر سیدھا بیٹھتے ہوئے کہا۔
"ان چوری چکاریوں کی وجہ سے پورا معاشرہ سمجھدار ہوتا جا رہا ہے، اور ساتھ ہماری بھی دال روٹی چلتی رہتی ہے، اب دیکھیں ناں اگر آپ کے بازار میں یہ کام نہ ہوتا تو کیا آپ مجھے ملنے آتے، حالانکہ میں آپ کا رشتہ دار بھی ہوں"، شام لال نے بات کرتے ہوئے لفظ رشتہ دار پر خاص زور دیا۔
"اچھا یہ بتاؤ، بڑا تھانے دار کب آئے گا؟"، رام لال نے کرسی سے اٹھتے ہوئے سوال کیا۔
"اس کا تو تبادلہ ہوگیا ہے، اب سرکار نے اگلے تین سال کے لئے مجھے اس علاقے کا چارج دے دیا ہے"، شام لال نے مُونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
رام لال کے منہ سے اچانک نکلا، "اچھا" یعنی اگلے تین سال تک یہ علاقہ چور ڈاکو کا کھیل ہی دیکھتا رہے گا، رام لال تھانے سے باہر نکلا تو باہر اندھیرا اور زیادہ چَھا چُکا تھا، رات اور زیادہ گہری ہو چکی تھی۔
(اس مضمون کا کراچی کے ڈاکو راج سے کوئی تعلق نہیں، یہاں کے کرتا دھرتاؤں کے نزدیک کراچی اب بھی دنیا کے بہت سے شہروں سے زیادہ محفوظ ہے)۔