1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zafar Bashir Warraich/
  4. Allah Ke Naam Par Baba

Allah Ke Naam Par Baba

اللہ کے نام پر بابا

"اللہ کے نام پر بابا"، لاہور ائیرپورٹ پر سامان کی تلاشی دیتے ہوئے مسافر کے منہ سے اچانک یہ جملہ نکلا، تو سامان کی چیکنگ کرتے آفیسر نے حیران ہوکر بوڑھے مسافر کو غور سے دیکھا، اور آنکھ کے اشارے سے دوسرے افسر کو ان سے تفصیل سے انٹرویو کا کہا، بابا جی سفید داڑھی، سفید احرام میں ملبوس تھے۔

جوان افسر کے گُھومتے سوالات کے سامنے بابا جی تھوڑی دیر میں ہی ڈھیر ہوگئے، اور بتا دیا کہ وہ عُمرے کے بَھیس میں سعودی عرب بھیک مانگنے جا رہے ہیں، تھوڑی اور تفتیش میں بابا جی کے مزید گیارہ ساتھی پکڑے گئے، سب کے سب سعودی عرب بھیک مانگنے جا رہے تھے، گروپ میں عورتیں اور بچے بھی تھے، کیونکہ بچوں اور عورتوں کی فریاد سن کر بڑے سے بڑا پتھر دل بھی ایک ہاتھ کانوں کو اور دوسرا جیب میں ڈال کچھ نہ کچھ نکال ان کی ہتھیلی پر رکھ چھوڑتا ہے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ احرام میں ملبوس بِھک مَنگوں کی پکڑائی کے ایسے کئی واقعات نہ صرف لاہور ائیرپورٹ بلکہ کراچی سمیت کئی دوسرے شہروں میں بھی ایسے گروہ گرفتار ہوچکے ہیں، اور مناسب قوانین نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دن بعد پھر احرام لپیٹے ریال کا طواف کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بیچاروں کو پکڑ کر افسران نے کون سی نیک نامی کمائی ہوگی، لیکن جب ان پیشہ ور بِھک مَنگوں کے بارے مزید معلومات اکٹھی کی گئی، تو حیران کُن اعدادوشمار نے ذہن کو گھما دیا۔ اکٹھے کئے گئے حقائق سے پتہ چلا کہ چوبیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں تین کروڑ اسّی لاکھ بھکاری ہیں، جس میں بارہ فیصد مرد، پچپن فیصد عورتیں، ستائیس فیصد بچے اور بقایا چھ فیصد سفید پوش واقعی مجبور لوگ شامل ہیں۔

ہاتھی کے پیر میں سب کے پیر کے مصداق اس تعداد میں صرف کراچی میں پچاس فیصد، لاہور میں سولہ فیصد، اسلام آباد میں سات فیصد اور بقایا بھکاری ملک کے دیگر تمام شہروں میں موجود ہیں۔

اب اگر روزانہ کی کمائی کی بات کریں تو کراچی میں اوسطاً فی بِھک مَنگا دو ہزار، لاہور میں چودہ سو روپے اور اسلام آباد میں ساڑھے نو سو روپے کما لیتا ہے۔ اسکے علاوہ شہروں میں ہر بھکاری اوسطاً ساڑھے آٹھ سو روپے دوسروں کی جیب سے اپنی جیب میں منتقل کرلیتا ہے۔

روز کی فی بھکاری دیہاڑی کو جمع تفریق کے عمل سے گزارا تو یہ بِھک مَنگی کا سارا پیسہ بتیس ارب روپے روزانہ کی تعداد میں جمع ہوتا ہے، اور اگر اس رقم کو سلانہ بنیاد پر جمع کریں تو یہ رقم ایک سو سترہ کھرب روپے بنتی ہے، اور اگر اس ایک سو سترہ کھرب کو ڈالری ترازو میں تولیں تو یہ بیالیس ارب ڈالر سال کے بنتے ہیں۔

یعنی دوسرے لفظوں میں کسی منافع بخش یا ترقیاتی پراجیکٹ کے بغیر سالانہ بیالیس ارب ڈالر عوامی جیب سے نکل کر بھکاری جیب میں چلے جاتے ہیں اور وہ پھر بھی نسل در نسل فقیر کے فقیر۔

اب اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں، تو پھر سر چکرانے لگا، اس ساری خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ اکیس فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اسکے علاوہ ملکی ترقی کے لئے تین کروڑ اسی لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی۔

جبکہ اس بِھک مَنگے گروہ سے صرف معمولی معمولی کام لینے کی صورت میں ہی اڑتیس ارب ڈالر کی آمدنی متوقع ہے، جس سے نہ صرف ملک چند سالوں میں پاؤں پر کھڑا ہوجائے گا، بلکہ ان بھکاریوں کو باعزت روزگار بھی مہیا کیا جاسکتا ہے، یعنی نسل در نسل بھکاری پن ختم اور عزت والی زندگی شروع۔

اب اگر عام آدمی اپنے بچوں کا نوالہ چھین کر ان بھکاریوں کی جیبوں میں ڈالتے رہینگے، تو اگلے سو سال تک بھی ان بِھک مَنگوں کی نسلیں بھیک مانگ رہی ہونگی، اور خود عام آدمی بھی اسی طرح ذلت کی زندگی گزار رہا ہوگا۔

اپنے آس پاس نظر ماریں تو اپنے پرانے ساتھی بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا، اسکے اگلے ٹھیک چار سال بعد اسکے پاس باون ارب ڈالر کے ذخائر جمع ہوگئے۔

آخری لفظوں میں اگر اب بھی حکومت اور عوام نے مل کر اس بھکاری سسٹم کو عزت دار سسٹم میں تبدیل نہ کیا، تو نہ صرف باہر ملک یہ ہماری اور ہمارے ملک کی عزت کی دَھجّیاں بکھیرتے رہیں گے، بلکہ اپنے بازاروں میں بھی ہمارے کپڑے کھینچتے رہیں گے۔

Check Also

Netflix Ka Aik Naya Dramayi Silsila

By Nusrat Javed