Achai Aur Burai Ki Pehchan
اچھائی اور برائی کی پہچان
"لیکن ہم اچھے اور برے لوگوں میں فرق کیسے کر سکتے ہیں؟ سب کی جسمانی وضع قطع ایک سر، ٹانگیں، ہاتھ، پاؤں ایک جتنے حتٰی کہ انگلیاں تک پانچ پانچ، اب کسی کے چہرے پر تو نہیں لکھا کہ یہ اچھا ہے یا برا؟" میں نے ایک ہی سانس میں ٹیچر سے کئی سوال کر دئیے، میں اور ٹیچر سکول کی چھٹی کے بعد عموماً ایک ساتھ گھر واپس جاتے ہیں، کیونکہ ہم ایک ہی محلّے میں رہتے ہیں، ہمارا محلّہ درمیان میں بڑی سڑک اور دوسری طرف چھوٹی سڑک کی دوسری گلی میں میرا سکول۔
استاد نے میری بات سن کر جواب دیا "یہ تو بہت آسان کام ہے، اچھے برے کا تو بڑی آسانی سے پتہ چلایا جا سکتا ہے"، "لیکن کیسے؟" میری آواز تھوڑی بلند تھی، اور اس میں اکتاہٹ شامل تھی۔ ہم بڑی سڑک پر آ چکے تھے، "آؤ تمہیں سمجھاؤں"، ٹیچر نے میری طرف دیکھے بغیر میرا بازو پکڑا اور بڑی سڑک پار کرنے کے لیے قدم بڑھا دئیے، ہمارے سڑک پار کرنے کے دوران کئی گاڑیاں جو تیزی سے آ رہی تھیں، انہوں نے اپنی رفتار کم کی، اور گاڑی روک کر ہمیں گزرنے کا اشارہ کیا۔
کچھ گاڑی والے جو آہستہ آ رہے تھے، انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی گاڑی بھگائی اور ہمارے آگے سے تیزی سے گاڑی بھگا لے گئے، کچھ گاڑی والے تو ہمارے آگے سے گزرتے ہوئے بیہودہ جملے اور ہلکی پھلکی گالیاں دے کر گزر گئے، ان ڈرائیوروں کے جاہل، مرنے کا ارادہ ہے کیا، اندھے ہو کیا اور چند ایسے الفاظ جو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا، تو میں نے اپنے کانوں سے سنے، بعض الفاظ پر غصّے سے میرے کان لال ہونے لگے۔
"غصّہ چھوڑو"، سڑک کے دوسری طرف فٹ پاتھ پر قدم رکھتے ہوئے ٹیچر نے کہا، "اب تمہیں اچھے یا برے کا پتہ چلا یا نہیں؟
"نہیں "، میں نے غصے سے ٹیچر کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا، ڈرائیوروں کی گالیاں بار بار میرے کانوں میں بج رہی تھیں، اور میرا غصہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا تھا۔
"دیکھو بیٹا، جو ڈرائیور تیز گاڑی چلا رہے تھے، وہ سب کے سب کسی نہ کسی سیریس صورتحال یا ایمرجنسی میں تھے، کسی کا عزیز ہاسپٹل میں تھا، کسی نے بچے کو سکول سے لینا تھا، کسی کو آفس سے دیر ہو رہی تھی، کوئی ایمرجنسی میں جا رہا تھا، لیکن ان کی جبلت میں شرافت، شائستگی اور اچھی تربیت نے انہیں مجبور کیا، اور وہ انتہائی جلدی کے باوجود رکے، مسکرائے اور ہمیں گزرنے کا اشارہ کیا۔
جو ڈرائیور آہستگی سے آ رہے تھے، اور ہمیں دیکھتے ہی تیز ہو گئے، انہیں سگریٹ پینے، گپیں ہانکنے اور لوگوں کی طرف دیکھ کر تبصرے کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا، لیکن طبیعت کی شیطانیت، دوسروں کو تکلیف دے کر مزہ لینا اور والدین کی غلط تربیت کی وجہ سے ہمیں پہلے گزرنے نہیں دے رہے تھے، ان کے نزدیک وہ اعلیٰ اور ہم کم تر تھے۔
"اور تیسرے ڈرائیور جنہوں نے گالیاں بھی دیں "؟ میں نے آہستگی سے پوچھا۔
"وہ کسی بھی معاشرے کا گندہ چہرہ، گند اور ناسور ہوتے ہیں، یہی لوگ جرائم بھی کرتے ہیں، ایسے لوگ ہر معاشرے کا بھیانک چہرہ ہوتے ہیں، ان کی عادتوں سے پورا معاشرہ بدنامی محسوس کرتا ہے، یہ انسانیت کی بدترین شکل میں زندہ رہتے ہیں، یہ لوگ نہ خود زندگی کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ دوسروں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔
استاد صاحب کا گھر آ چکا تھا، انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا "زندگی میں اچھائی اور برائی کو پہچاننے کے اور بھی طریقے ہیں، لیکن میرا خیال ہے تمہیں آج کا سبق نہیں بھولے گا"، یہ کہہ کر ٹیچر اپنے گھر میں داخل ہو گئے اور میں زندگی کا ایک شاندار سبق سیکھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔